ہے اس کا دعویٰ وہ رہنے کو سب کو گھر دے گا
Posted: Sat Dec 07, 2024 12:22 am
یہ کلام ۱۹ مارچ ۲۰۲۴ میں لکھا گیا تھا
قارئین کرام ایک تازہ کلام لے کر حاضرِ خدمت ہوں ، امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھیرا دل سے جو نفرت کا دور کر دے گا
وہ اپنی زیست میں الفت کا نور بھر دے گا
جسے ملا نہیں رہنے کو کوئی گھر یارو
ہے اس کا دعویٰ وہ رہنے کو سب کو گھر دے گا
غرور جس نے کیا منہ کے بل گرا لوگو
زمانہ اس کی تباہی کی خود خبر دے گا
وہ کہہ رہا تھا میں سب کو رلاؤں گا اک دن
اسے قفس سے بھلا کون اب مفر دے گا
کتر کے رکھ دیے صیّاد نے ہیں پر اس کے
اڑان بھرنے کو پنچھی کو کون پر دے گا
جو بویا تم نے تھا اپنی حماقتوں کا بیج
شعور کا تمہیں وہ کس طرح ثمر دے گا
محبتوں سے کبھی تم بھی کوئی بات کرو
تمہارا لہجہ محبت میں رنگ بھر دے گا
ہر ایک شخص یہاں ہے بہت شریف خیالؔ
ملے گا جس کو بھی موقع وہ ہاتھ کر دے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ