برا کام تین طریقوں سے کیا جاتا ہے. ہندستان میں تیسرا طریقہ رائج ہے.بکرس انعام یافتہ ادیبہ اروندھتی رائے نے ملک کے حالات پر اسی لئے تشویش اور دکھ ظاہر کیا ہے.وہ ان چند ہندستانیوں میں ہیں جن کو اپنے ان خیالات کی سزا معاشرہ میں اکثربھگتنی پڑتی ہے، مگر یہ چند لوگ پھر بھی باز نہیں آتے.بہر حال دنیا میں جب تک برے کام کو برا سمجھنے والے موجود ہیں یہ دنیا خطرے سے باہر ہے.مگر جس دن برے عمل کا وہ تیسرا طریقہ اس زمین پر بسنے والے ہر انسان کاشیوہ بن جائے گا تو اس دن زمین کا وجود ریزہ ریزہ ہو جائے گا. دنیا تو ہزاروں سال سے یہ زخم جھیلتی آرہی ہے اور برائی کو برا کہنے والوں کی شکرگزار بھی ہوتی آئی ہے. ہاں اگر ملک اور قومیں اپنے ایسے کریہہ امراض کا مداوا نہ ڈھونڈیں تو اجتماعی سزا ان کا مقدر بن جاتی ہے، پھر چاہے وہاں برائی کو برائی کہنے والے بھی رہتے ہوں اور چاہے اجتماعی سزا کے تصور کا مذاق اڑانے والے یا ایسے ذکر پر برہم ہونے والے کتنا ہی اپنے پھیپڑے استعمال کرتے رہیں.ہندستان اگر اروندھتی رائے جیسوں کی نحیف آواز سن لے گاتو کچھ اپنے ساتھ بھلائی کرے گا. نکتگو 0021 میں بس اسی کمزور آواز میں آواز ملائی ہے.
محمد طارق غازی
آٹوا،کنیڈا - جمعہ یکم مئی 2009