ناظرین اردو بندھن کی خدمت میں آداب و تسلیمات
سیدانورجاویدہاشمی کراچی پاکستان
کراچی کے ایک معروف شاعر امتیاز ساغر جن کا اصل نام امتیاز احمد خان ہےتین شعری مجموعوں کے شاعر ہوگئے ہیں۔ان کا پہلا مجموعہ صحرا کی ہوا ۱۹۹۵ میں،دوسرا کسی شام مجھ میں قیام کر ۲۰۰۲ اور موجودہ شعری مجموعہ نقش ہوا ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا اس طرح ان مجموعوں کی اشاعت میں سات برس کا وقفہ رہا ہے۔یہ بات جامعہ کراچی شعبہ اردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی نے بتائی۔وہ بروز ہفتہ ۲۹مئی کی شام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں نقش۔ ہوا کی تقریب رونمائی سے خطاب کررہے تھے۔ان سے قبل دمام سعودی عرب کے شاعر سہیل ثاقب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سرورجاوید نے امتیاز ساغر کی نظموں پر ایک تجزیہ پیش کیا۔معروف نثر نگار سب رنگ ڈائجسٹ کے سابق مدیر شکیل عادل زادہ نے کہا کہ تواتر سے شعری مجموعے شائع ہورہے ہیں۔وقت کا آئینہ تو موجود ہے۔ہلکا پھلکا عارضی اثر رکھنے والا ادب کثرت سے آتا رہے گا۔امتیاز ساغر نے اپنی بساط اور وسعت کے مطابق شاعری کی ہے اچھا ہوا انہوں نے غزل اس میں شامل نہیں کی۔غزل کہنا آسان نہیں اس میں بڑے بڑے لوگ ناکام رہے ہیں۔شعری مجموعے کثرت سے آرہے ہیں تو ان کا مول بھی ہے مگر ان کو خریدار نہیں ملتے۔شکیل عادل زادہ نے اس مجموعے کو امتیاز ساغر کا شاعری سے عشق اور ان کے ایثار کا حاصل قراردیا۔مہمان خصوصی صوبائی وزیر سندھ برائے صنعت نے صاحب مجموعہ کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کے اور ان کی دوبیگمات کے لیے عمرے کے ویزے کے مصارف برداشت کرنے کی نوید سنائی۔صدر محفل پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ امتیاز ساغر کے پہلے دو مجموعے بھی ہم نے پڑھے اور موجودہ نظموں کا مجموعہ ان کے تازہ دم ہونے کا ثبوت ہے اس شاعری میں بڑی تازگی نظر آتی ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ امتیاز ساغر مزید کلام بھی سامنے لائیں گے۔اس سے قبل امتیاز ساغر نے چند اشعار اور دو نظمیں سنائیں۔سحر انصاری کے خطاب کے دوران ہمارے برابر بیٹھے پاکستان کرانیکل کے مرتب معروف شاعر عقیل عباس جعفری نے کہا کہ پہلے مجموعے سے احساس ہوتا ہے کہ دوسرا بھی آئے گا مگر جب تیسرا شعری مجموعہ چھپ جائے تو سمجھ لیں کہ اب یہ شاعرپیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔
[/color]سیدانورجاویدہاشمی کراچی پاکستان
کراچی کے ایک معروف شاعر امتیاز ساغر جن کا اصل نام امتیاز احمد خان ہےتین شعری مجموعوں کے شاعر ہوگئے ہیں۔ان کا پہلا مجموعہ صحرا کی ہوا ۱۹۹۵ میں،دوسرا کسی شام مجھ میں قیام کر ۲۰۰۲ اور موجودہ شعری مجموعہ نقش ہوا ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا اس طرح ان مجموعوں کی اشاعت میں سات برس کا وقفہ رہا ہے۔یہ بات جامعہ کراچی شعبہ اردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین احمد شاداب احسانی نے بتائی۔وہ بروز ہفتہ ۲۹مئی کی شام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں نقش۔ ہوا کی تقریب رونمائی سے خطاب کررہے تھے۔ان سے قبل دمام سعودی عرب کے شاعر سہیل ثاقب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔سرورجاوید نے امتیاز ساغر کی نظموں پر ایک تجزیہ پیش کیا۔معروف نثر نگار سب رنگ ڈائجسٹ کے سابق مدیر شکیل عادل زادہ نے کہا کہ تواتر سے شعری مجموعے شائع ہورہے ہیں۔وقت کا آئینہ تو موجود ہے۔ہلکا پھلکا عارضی اثر رکھنے والا ادب کثرت سے آتا رہے گا۔امتیاز ساغر نے اپنی بساط اور وسعت کے مطابق شاعری کی ہے اچھا ہوا انہوں نے غزل اس میں شامل نہیں کی۔غزل کہنا آسان نہیں اس میں بڑے بڑے لوگ ناکام رہے ہیں۔شعری مجموعے کثرت سے آرہے ہیں تو ان کا مول بھی ہے مگر ان کو خریدار نہیں ملتے۔شکیل عادل زادہ نے اس مجموعے کو امتیاز ساغر کا شاعری سے عشق اور ان کے ایثار کا حاصل قراردیا۔مہمان خصوصی صوبائی وزیر سندھ برائے صنعت نے صاحب مجموعہ کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کے اور ان کی دوبیگمات کے لیے عمرے کے ویزے کے مصارف برداشت کرنے کی نوید سنائی۔صدر محفل پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ امتیاز ساغر کے پہلے دو مجموعے بھی ہم نے پڑھے اور موجودہ نظموں کا مجموعہ ان کے تازہ دم ہونے کا ثبوت ہے اس شاعری میں بڑی تازگی نظر آتی ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ امتیاز ساغر مزید کلام بھی سامنے لائیں گے۔اس سے قبل امتیاز ساغر نے چند اشعار اور دو نظمیں سنائیں۔سحر انصاری کے خطاب کے دوران ہمارے برابر بیٹھے پاکستان کرانیکل کے مرتب معروف شاعر عقیل عباس جعفری نے کہا کہ پہلے مجموعے سے احساس ہوتا ہے کہ دوسرا بھی آئے گا مگر جب تیسرا شعری مجموعہ چھپ جائے تو سمجھ لیں کہ اب یہ شاعرپیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔