دوستی کی خاطر
ابو طارق حجازی
یہ جب کی بات ہے جب شیر خان نے لا لہ بنسی دھر سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے اس وقت اس کا دوست جیون بھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا لا لہ نے یہ روپے چھہ ماہ کی مدت پر دئے تھے ..لیکن جب یہ مدّت گزر گیی.تو شیر خان نے دو ماہ کی مدّت طلب کی جو لا لہ نے دے دی مگر دو کیا جب چار ماہ گزر گئے اور لا لہ بنسی دھر روپیہ مانگنے گیا تو شیر کہن نے روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہ دیا کہ تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تم سے کوی روپیہ نہیں لیا ..جاؤ رپٹ لکھا دو تھانے میں ...
بس اب تو بات ہی الٹ گی شیر خان نے نہ صرف یہ کہ ایک سال گزر جانے پر روپے نہیں دیے بلکہ روپے لینے سے ہی انکار کر دیا.لا لہ بنسی دھر کو بڑی حیرت ہوئی اس کو یاد آیا کہ روپیہ دیتے وقت جیون بھی وہاں بیٹھا تھا جیون بڑا سچا پکا اور نمازی آدمی تھا اسی لئے لوگ اس کو ملا جیون کہتے تھے. لا لہ بنسی دھر نے عدالت میں درخوست لگا دی اور یہ بھی لکھ دیا کہ ملا جیون سے اس کی تصدق کر لی جائے.
ہوا شیر خان کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوا. لیکن اس کو یہ اطمینان ہوا کہ معاملہ ملا جیون کے ہاتھ میں ہے اور ملا جیون اس کا پکّہ دوست ہے وہ فورا ملا جیون کے پاس گیا اور سارا معاملہ اس کو سنا دیا اور یہ کہا یہ میری عزت کا سوال ہے میں تم کو اپنی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں ..ملا جیون بہت پریشانی میں پھنس گیا کچھ دیر بعد اس نے سوچ کر کہا ..شیر خان اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا دوست .. ایک پرانا.. تو اس کو کس کا ساتھ دینا چاہیے.. شیر خان نے چمک کر کہا.. پرانے کا... میں تو تمہارا پرانا دوست ہوں.. شیر خان مطمن ہو کر چلا گیا.
چند ہفتہ بعد عدالت میں پیشی ہوئی ..بنسی دھر نے اپنا معاملہ پیش کیا جج صاحب نے بہ حثیت گواہ ملا جیون کو طلب کیا .شیر خان بہت خوش تھا اس کی دوستی کام آ رہی تھی ..ملا جیون آیا اور بیان دیا ..لا لہ بنسی دھر سچ کہتا ہے اس نے شیر خان کو پانچ سو روپے میرے سامنے دئے تھے ..شیر خان جھوٹ بولتا ہے.عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا اور شیر خان کو دو ہفتہ کے اندر ادایگی کا حکم دے دیا .
شیر خان شیر کی طرح بپھرا ہوا ملا جیون کے پاس آیا اور کہا تم دھوکے باز ہو تم نے مجھے دھوکا دیا ملا جیون نے نرمی سے کہا ناراض مت ہو.. میں نے یہ کام تمہارے مشورہ سے کیا ..میرا مشورہ... کیا خاک مشورہ ...ملا جیون نے کہا تم کو یاد نہیں میں نے تم سے کہا تھا کہ اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا ایک پرانا .. تو اس کو کس کا کہنا ماننا چاہیے..تم نے جواب دیا پرانے کا ..بس پھر میں نے تمہارے مشورہ پر عمل ..اور پرانے دوست کا کہنا مانا.....کون ہے تمہارا پرانا دوست.. شیر خان .... نے چمک کرکہا
میرا پرانا دوست اللہ ہے.. ملا جیون نے کہا ..جس سے میری پچاس سال پرانی دوستی ہے روز میں اس کے پاس وقت گزارتا ہوں اس کی باتیں سنتا ہوں اپنی باتیں سناتا ہوں.. اس نے کہا دیکھو جھوٹ کبھی نہیں بولنا ... بس میں نے یہ کام اس کی دوستی کی خاطر کیا... رہا تمہارے قرضہ کا سوال تو کل میں نے اپنا مکان رہن رکھ کر لا لہ بنسی دھر کو پانچ سو روپے دے دیے ہیں اب وہ تمہارے پاس قرض مانگنے نہیں آے گا .