Akhtar Saeedi ka majmoua....review

Adabi aur tanqeedi mazaameen
Afsane aur tabsire

Moderator: munir-armaan-nasimi

Post Reply
sajhashmi
-
-
Posts: 554
Joined: Thu Oct 23, 2008 7:40 am

Akhtar Saeedi ka majmoua....review

Post by sajhashmi »

فراغتے و کتابے و گوشہ ء چمنے
د ا ئرے ماہنامہ مئی 1990 مدیر: حسنین کا ظمی
شمارہ نما'''ی کتاب ایک مبصر
چراغ جلنے تک -- ایک مطالعہ انورجاویدہاشمی 88

1980ء سے شروع ہونے والے عشرے کا اختتام ہوا چاہتا ہے اس دہائی کے عرصے میں عزم بہزاد،لیاقت علی عاصم،شاداب احسانی،شہاب الدین شہاب،عارف شفیق،اجمل سراج،آنس معین،باصرسلطان کاظمی،راغب شکیب، سجاد ہاشمی اور اخترسعیدی تک متعدد نوجوان اور اُبھرتے ہوئے شعراء نے سخں آباد میں جلوہ گر ہو کر غزل کے حوالے سے اپنی شناخت کروائی ہے نہ صرف یہ بلکہ خود غزل ان کی شناخت بنتی چلی جارہی ہے۔ان اُبھرتے ہوئے نوآموز شعراء کی کوئی مخصوص لابی نہیں ہے۔باصر سلطان کاظمی مرحوم ناصر کاظمی کے صاحبزادے ہیں۔شہاب الدین شہاب ٹیلیویژن پر خبریں پڑھ رہے ہیں،راغب شکیب نے سرگودھا سے کراچی تک کے سفر میں ہمسفروں سے ملاقات کا احوال کتاب کی صورت میں پیش کردیا ہے۔عارف شفیق ،فیض احمد فیض سے بڑے شاعر بننے کے زعم میں مبتلا نظر آتے ہیں۔آنس مُعین ،جناب فخرالدین بلے کے صاحبزادے خوش کلام شاعر تھے،جنہوں نے یکسانیت سے اُکتاکر ملتان میں خودکشی کرلی تھی۔اسی طرح سجاد ہاشمی کو قمر ہاشمی جیسے نام ور نظم گو شاعر کا بیٹا ہونے کا شرف حاصل ہے، اور عزم بہزاد کو اجمل سراج،اختر سعیدی ،لیاقت علی عاصم اور شاداب احسانی کا ہم عصر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اخترسعیدی آٹھ ،دس برسوں سے بڑی توجہ اور خاموشی کے غزل کہہ رہے ہیں۔ مشفق خواجہ صاحب نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ اگر وہ اسی توجہ کے ساتھ غزل کہتے رہے تو وہ ایک دن خودغزل کی شناخت بن جائیں گے۔یہ کوئی پیش گوئی نہیں،محض ایک دعا ہے اور یہ دُعامشفق خواجہ کے دل سے نکلی ہے۔اس رائے کا اظہار انہوں نے اختر کے شعری مجموعے ’’چراغ جلنے تک‘‘ کے فلیپ پر کیا ہے۔محسن احسان، شبنم رومانی ،سرشارصدیقی،سحرانصاری،خواجہ رضی حیدر کی آراء اور محترم ڈاکٹرابوالخیرکشفی کے پیش لفظ سے بھی اختر کی شاعری کے بارے میں بہت کچھ جانا اور معلوم کیا جاسکتا ہے جو کچھ ’چراغ جلنے تک‘ نامی شعری مجموعے میں شامل اشاعت ہیں۔ اخترسعیدی کا شاعر بننا میرے لیے اچنبھے یا حیرت کا باعث نہیں جوہرسعیدی(بادِ سُبک دست)کے بڑے صاحبزادے مرحوم ثروت سعیدی(جنگ)سے 1969ء سے لے کر اُن کی وفات تک میرے دیرینہ تعلقات رہے اس اثناء میں اخترکا مشاعروں میں بطورمنتظم دلچسپی لیتے رہنا اس امر کا غماز تھا کہ پوت کے پائوں پالنے میں نظرآتے ہیں۔چناں چہ مرحوم وقار صدیقی اجمیری(اب تو آجا کہ ترا راستہ تکتے تکتے :میری آنکھوں میں کھٹکنے لگی بینائی بھی)جانشین بہار کوٹی کی یاد میں نئی کراچی کی ایک شعری نشست میں جب اخترسعیدی کا نام اعجاز رحمانی صاحب نے پکارا تو میرے سامنے وہ ایام آگئے جن کا نتیجہ اختر کی شاعری کی صورت میں جلوہ گر ہوا ؎ دن تو گزرا تھا سفر میں لیکن:۔۔۔۔۔۔: رات بھی بے بسری میں گزری
}89{ی یہ فن کارانہ مشاقی نہیں سچائی اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ جلوہ آراء ہے وہ رات جس مشاعرہ کا ذکر ہے پہلی رات نہیں تھی جو اختر نے بے بسری میں گزاری ہو ؎ مدتوں صحرا نوردی کی مرے اجداد نے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔: مجھ کو ورثے میں جنون ِ آبلہ پائی ملا
اس جنون ِ آبلہ پائی کو اپنی میراث قراردینے کے بعد اخترکے لہجے میں نمایاں تبدیلی ضرورآئی ہے لیکن وہ ’قلب ساز‘ نہیں اس لئے انھوں نے مبارزت کا یہ انداز اختیار کیا ہے ؎ کسے فطر ت کا آ ئینہ لکھوں میں‌‌ :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔: نہیں اس شہر میں بے با ک کو ئی
اخترسعیدی نے آئینے کو کئی جہتوں سے دیکھا ہے اور اس استعارے کو حقیقت کی ایسی عملی شکل عطاکی ہے جو عصرِ‌حاضر کے شعراء کی بصیرت و بصارت سے اوجھل رہی ہے۔ایک طرف وہ زمانے کی صورت حال کا مشاہدہ پیش کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں ؎
کسے ہم ا پنا کہیں کس پہ ا عتما د کر یں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:ہر ا یک شخص یہا ں آ ئینے سے ڈرتا ہے
غالب جیسے شاعر نے بی اس خوف کااظہار مردم گزیدہ ہونے کے باعث کیا تھا لیکن اختران ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں وہ مصلحت اور منافقت کو کاروبارِ حیات میں شریک کرنے والوں سے قطع نظرآئینہ دیکھتے ہیں اس لئے کہ ؎ محا فظ ہے مر ی ا چھا ئیو ں کا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔: وہ آ ئینہ جو میر ے ر و بر و ہے
تمام تر معنویت اور خصوصیت کے ساتھ کسی استعارے کو بروئے کار لانا وقار سخن وری ہے اور اختر کو یہ وقار سخن آبادمیں قیام کرکے ہی نصیب ہوا ہے۔وہ موجودہ صورت حال کاایک تجزیہ اس طرح پیش کرتے ہیں؎ رفاقتوں کے سلسلے عداوتوں تک آگئے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔: محبتوں کے قا فلے کہا ں گئے خبر نہیں
محبتوں کے قافلے اب بھی رواں ہیں، یہ الگ بات ہے کہ نفسانفسی اور تعلقات کو کاروبار سے مشروط کیے جانے والے اس عہد میں رفاقتوں کے سلسلے واقعتآ عداوتوں تک آگئے ہیں۔زیرِ نظر مضمون جو آپ پڑھ رہے ہیں اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ محبتوں کا قافلہ رواں دواں ہے۔وقتی طور پر حالات ہمیں منتشر ضرور کردیتے ہیں مگر ہم معاصرانہ چشمک یا رنجش و نفرت کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے،ہم کہ اربابِ قلم ہیں، ہمارے فرائض معاشرے کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے کہیں فزوں تر ہیں بقول عزم بہزاد: ’’چراغ جلنے تک‘ ایک ایسی کرب انگیز جدوجہد کا منظرنامہ ہے جس میں روشنی ترویج کرنے والا ہاتھ تمام تر زخم خوردگی کے باوجود استقلالی ہے۔یہ وہ استقلال ہے جو ضبط و صبر کے مابین حدـ فاصل کھینچتا ہے اور اہلِ ظرف سے کسی نئی اصطلاح کا تقاضا کرتا ہےیہ مملکت اظہار ہے یہاں صرف روشن لفظوں اور اُجلے جذبوں کے امانت دار اپنے ہونے کا یقین اور رہنے کو زمین رکھتے ہیں۔یہاں اُن لوگوں کا داخلہ سختی سے ممنوع ہے جو دورانِ سفر ہمسفروں پروبال ہوں اور دورانَ قیام اپنے حُلیے اور حلقے بد لنے میں باکمال ہوں یہ درویشوں کا دربار ہے یہاں آتشِ سینہ کا استقبال ہوتا ہے آتش ِشکم کا نہیں۔یہاں نرم گفتاری کا انعام ہے اور بدکلامی پر دُشناماخترسعیدی اسی مملکت اظہار میں اپنے حق شہریت کا طالب ہے۔یہاں اس کے پیش روئون میں رساچغتائی،جون ایلیا اور جوہرسعیدی جیسے درویشان ِ خوش کلام آباد ہیں۔اور ان ہی کے لہجوں کی نرمی بانکپن اور کہیں کہیں شدت اس کی دستاویزات کی فائل۔’چراغ جلنے تک‘ میں مجھے امید ہے کہ اخترکو اس مملکت کی شہریت ضرور مل جائے گی اورنہ صرف شہریت بلکہ دربارِدرویشان میں کوئی مسند‘‘۔
؎کردیا بے نقاب چہروں کو:۔۔۔: آئینہ کتنا برگزیدہ ہے 'ان کو بھی کم و پیش اسی قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑاہے جن نامرادیوں کا تذکرہ میر نے کیا لیکن اُن کا لب و لہجہ اور گردش ِایام سے مقابلے کا عزم قطعی جداگانہ ہے ؎ زخم اتنے دیے زندگی نے مجھے:۔۔۔:زندہ رہنے کا مجھ کو کمال آگیا
اخترسعیدی نے نام نہاد روشنی دکھانے والوں اور رہزن کے روپ میں رہبر کا سوانگ رچانے والوں کا ساتھ کبھی نہیں دیا بلکہ وہ تو آنے والے وقت کے منتظر رہے
؎جلے چراغ تو سوچوں گا روشنی کیا ہے؟ :۔۔۔۔۔: کسی سے کچھ نہ کہوں گا چراغ جلنے تک اورجب آئینہ بینی کرتے کرتے انھیں معرفت حاصل ہوئی تو بے ساختہ یہ جذبہ شعر کی صورت میں اُبھرا؎ اب کسی کی بھی پہچان مشکل نہیں:۔۔۔: آگیا ہے مجھے آئینہ دیکھنا۔۔۔وہ چراغ جلنے کے بعد آئینہ دکھانے کا عزم کیے یں اور چراغ جلنے تک سب کی بات سننے پر آمادہ ہیں۔اخترسعیدی کی فکر نے چراغ جلادیے ہیں وہ ان کے حاسدوں کے لیے آئینہ بنتے چلے جارہے ہیں اب یہ حاسدوں کی مرضی ہے کہ وہ آئینے کو بُرابھلا کہہ کر مطمئن ہوجائیں یا اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں۔
ماہنامہ دائرے کراچی جلد 3،شمارہ 11 مئی 1990 کراچی صفحہ اٹھاسی 88 تا نوے90 سے نقل شدہ
مضمون کو 1990 کے تناظر میں دیکھا جائے اخترسعیدی کے 2 مزید شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
Post Reply