[size=200][color=#000080]سید انور جاوید ہاشمی فن و

Adabi aur tanqeedi mazaameen
Afsane aur tabsire

Moderator: munir-armaan-nasimi

Post Reply
sajhashmi
-
-
Posts: 554
Joined: Thu Oct 23, 2008 7:40 am

[size=200][color=#000080]سید انور جاوید ہاشمی فن و

Post by sajhashmi »

سید انور جاوید ہاشمی فن و شخصیت ۔۔۔۔پروفیسر آفاق صدیقی

میرے عزیز ادیب،محقق،مولف اور منتظم نور احمد میرٹھی نے میر پور خاص سے کراچی آنے
کے بعد اپنے ادارہ ء فکر نو سے، اپنے معاونین و رفقائے کار اور اشاعتی منصوبوں سے آگاہ کرتے
ہوئے انورجاویدہاشمی کا ذکر بھی کیا جومیرے لیے اجنبی تھے بھی اور نہیں بھی کہ روزنامہ کلیم میں
مہر الٰہی شمسی نے ادبی صفحے پر ان کی ادبی سرگرمیوں کی رپورٹس سن ستر سے اسی ١٩٨٠-٧٠
تک شائع کیں اور یہ صفحہ میں بہر صورت دیکھتا رہا۔دیگر ادبی رسائل اوراخبارات میں بھی ان کا نام
نظر نواز ہوتا رہا۔ایک بھری دوپہر میں میری عزیزآباد کی رہائش پر جب دستک کے بعد میں نے اپنے
سامنے چشمہ لگائے،پینٹ شرٹ میں ملبوس منحنی سے شخص کو دیکھا جن کے ہاتھ میں قومی زبان
کا شمارہ غالب نمبر تھا تو میں غائبانہ تعارف کی بنیاد پر اندازہ نہ لگاسکا۔موصوف نے خود ہی مجھھ
سے معانقہ کرتے ہوئے اپنا تعارف اور نوراحمدمیرٹھی صاحب کا حوالہ دیا۔قمر ہاشمی صاحب سے
شعروادب سے وابستہ کون ایسا فرد ہوگا جو واقف نہ ہو۔طویل نظموں کے مجموعے ہمہ رنگ و نغمہ
انساں،دانائی کا آفتاب لینن،سیرت نبوی پر طویل منظوم شاہ کار مُرسل ِ آخر اور مہاتما گوتم بدھ کی
منظوم سوانح نروان ساگر میرے مطالعے میں تبصرے یا ان پر لکھے گئے مضامین کی صورت میں
رہیں،طلوع افکار،قومی زبان،افکار،ادب لطیف،نیرنگ خیال،کاروان سکھر،ہم قلم رائٹرزگلڈ جس کے
ہم دونوں اساسی رکن رہے باقاعدگی سے میرے مطالعے میں آنے والے جرائد میں قمر ہاشمی کی
تخلیقات نظرسے گزرتی ہیں۔
سید انورجاویدہاشمی معروف شاعر سید عبداللہ سالک الہاشمی علیگ ایڈووکیٹ کے
خانوادہ کے رکن،اپنے آباء کی علمی و ادبی میراث کے مالک و جانشین ہیں۔سالک الہاشمی مرحوم
کا انتقال رئیس امروہوی کے ساتھ ہی ہوا تھا ان کا مجموعہ خاک ِ دل بھی نورصاحب نے عنایت کیا
اس میں ڈاکٹریونس حسنی کا رقم کیا تعارفی مضمون،قمر ہاشمی کی نظم فانوس ِغم بھی قدرے
اہمیت کی حامل ہیں۔راجستھان ٹونک کے یہ دونوں صاحب ِ اسلوب ترقی پسند فکر و نظرئیے کے
حامل شاعر،ادیب و صحافی کانپور میں حسرت موہانی کی مشائعت و معیت میں وقت گزارنے
کے بعد آل انڈیاریڈیو پر فراق،ساحر،اخترشیرانی وغیرہ کے ساتھ مشاعرے پڑھتے ہوئے جب
ہجرت سے دوچار ہوئے تو ان کا پڑائو سندھ کے مقام ٹنڈوآدم کو بننا قرار پایا جہاں جوھر سعیدی
کے اہل خانہ،دردسعیدی اور سرشارصدیقی و اسماعیل ذبیح بھی تھے۔ انورجاویدہاشمی نے اپنی
صغرسنی میں گھریلو ادبی نشستوں سے فیض و کسب کرنے کے ساتھھ ہی اپنے مطالعے کی
بنیاد پر فن کو مہمیز دیتے ہوئے سولہ برس کی عمر میں ہمدردنونہال میں چاند سے پہلی آواز
قطعہ چھپواکر ہی خودکو تخلیق کار نہیں بنایا اسکول و کالج کی غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی
ان کا اہم کردار رہا بین الکلیاتی مقابلہ شعرگوئی ہو،دیواری یا قلمی اخبار کا سلسلہ۔۔۔ان کی
اپنی تصانیف و تالیفات میں نئے بت پرانے پجاری ١٩٨٥،مشاہدہ ء حق ١٩٨٧،تکلف برطرف
تنقیدی مطالعہ ١٩٨٨،شعری مجموعہ انتظار کے پودے ١٩٨٩ اور والد کے مجموعے خاک ِ
دل کے نام شامل ہیں جن کی اشاعت و ترسیل میں ادارہ ء فکر نو یانوراحمد میرٹھی کا عمل
دخل رہا۔
مئی ١٩٩٨ کا سرگزشت ہماری نظر سے گزرا جس میں جمال احسانی کا سوانحی
خاکہ ڈاکٹرساجد امجد نے ستارہ ء جمال کے عنوان سے تحریر کیا۔ڈاکٹرساجد امجد کا تعلق
پریمئیر کالج سے بھی رہا اور تدریس کا ایک حوالہ بھی ہماری دوستی کی بنیاد رہا۔ سرگزشت
کے اس شمارے میں ساجد رقم طراز ہوتے ہیں:
ِِ ِ فی البدیہہ مشاعرے میں سب سے زیادہ شعر انورجاویدہاشمی اورمحسن اسرار
نے کہے۔جمال کو یہ بات کھَل گئی۔: انورجاویدہاشمی اس سے زیادہ شعر کہے!
ہٹائو یار ،یہ کیا بات ہوئی تعداد بڑھالی کوئی معیار بھی ہے؟جمال کو یہ بات کون بتاتا کہ
ایسے مقابلوں میں تعداد کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے “۔
یہ طرحی فی البدیہہ مشاعرے ڈاکٹریوسف جاوید کے گھر پر ہوتے جس میں نوراحمدمیرٹھی
مصرعہ دیا کرتے تھے حوالہ سرگزشت
یہی انورجاوید ہاشمی ١٩٩٢ء میں ماہانہ زیر ِ لب کراچی میں نسیم احمد شاہ
کی ادارت میں اپنی شگفتہ نگاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چلتے پرزے کے عنوان سے فرضی
خطوط میں شاعروں،ادیبوں،فنکاروں کا خاکہ اڑاتے ہیں۔اس سے پہلے ١٩٨٨ء میں ماہنامہ
قافلہ میگزین انٹرنیشنل کراچی بنکاک میں اقبال حیدری کے معیشت کے حوالے سے،عجائبات
عالم اور فلمی دنیا کی بابت تراجم و طبع زادمضامین بھی ان کے شائع ہوئے۔روزنامہ نئی روشنی
شرارت ڈھاکہ،کلیم سکھر،انکشاف،نشاط،کشش اور پھر ہمارے دوست لیاقت قریشی کے جاری
کردہ کندن میں خود ہمارے نائب مدیر کے طور پر ان کے کتابوں،رسائل پر تبصرے اور ادبی
رپورٹس و مضامین ان کی صحافیانہ سرگرمیوں کا عملی ثبوت ہیں۔١٩٧٠ء میں کھلتی کلیاں
١٩٧٦ء میں اقبال صدی پر عکس اقبال مجلہ،جولائی ١٩٦٩ سے ٢٠٠٦ تک مختلف ادبی
رسائل میں معاون ِ ادارت، روزنامہ جنگ ٢٠٠٣ سے ٢٠٠٥ پھر اردو لغت بورڈ ٢٠٠٤ء
سے ٢٠٠٨ تک وابستگی ان کی فعالیت،ادب و فن اور زبان سے دلچسپی اور ہمہ جہتی قلمی
و ذہنی تگ و دو کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
عزم سے تو نہیں ہیں سوا راستے: ہمتوں کی نظر میں ہیں کیا راستے
رہ نما کی ضرورت بھلا آ پ کو : آپ کے واسطے رہ نما ر ا ستے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک عمر سے یونہی دروازہ کھولے بیٹھا ہے
یہ راستا جو مر ے سا تھھ چل نہیں سکتا
یہ آ د می جو جزیروں میں بٹ گیا یا ر و
ہو متحد تو سمند ر نگل نہیں سکتا
۔۔۔۔۔۔
یہ روش بھی ہاں مزاج ِ عشق میں پیدا کرو
وہ تمہیں چاھے نہ چاھے تم اسے چاہا کرو
یہ اشعار ان مشاعرہ جاتی غزلوں کے ہیں جو انہوں نے ١٩٧٠ کی دہائی سے ١٩٨٠
تک لانڈھی کورنگی، نئی کراچی تا شہر بھر کی ادبی محافل میں پڑھیں۔
کھنکھناتے ہوئے گارے سے بنا کر مجھ کو:: پھونک دی اشارے سے بناکر مجھ کو
وہ اب اس طرف دیکھتا ہی نہیں ہے:: ستاروں کو میرا نگہ بان کر کے

سجدہ کرکے پلٹے گا جب مسجد سے:: پہنے ہوئے ٹوٹی چپل رہ جائے گا
چیٹنگ کر نے والے بڑھتے جائیں گے:ٹی وی پر خالی چینل رہ جائے گا
‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘
سر پر مٹکا ،گود میں بچہ ،لب پر پیاس سجی
ڈھونڈے ما سی آ ب و دانہ ریت پہ ننگے پائوں
الغوزہ ، بینجو، ڈھولک، اکتارا سا تھھ لیے
سائیں بجاتے گا تے جانا ریت پہ ننگے پائوں
‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘
سیل ِ گریہ جب سے آنکھوں سے میسر آگیا
ترک میں نے کر دیا اے یا ر د ر یا باندھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک نام تھا سلیم کا جو دل میں رہ گیا
مدت ہوئی کہ دل اسی محفل میں رہ گیا حلقہ ء سلیم احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی مدیر صریر،کہانی کار جوگندر پال،خالد احمد مدیر بیاض،اظہر جاوید
ادب لطیف کی صدیقہ بیگم،جمال نقوی اور بہت سے اہل فکر و نظر نے ان کی شاعری کو
سراہا۔۔۔۔۔سجاد ہاشمی کا تعارف جنگ میں پیش کرتے ہوئے ان کا نام سہواَ َ رہ گیا تھا
ان سطور سے امید کہ انورجاوید ہاشمی کا مختصر تعارف آپ تک پہنچ گیا ہوگا
ادیب منزل، آر -١١٢،سیکٹرسولہ اے نارتھھ کراچی ٢٠٠٧ میں لکھا گیا
Post Reply