TaareeKh-e-wafaat-e-Mahmood Ahmad - Tanwir Phool

Kuhnah mashq ShoAraa kaa kalaam jo beHr meiN hounaa zaroori hei

Moderator: Muzaffar Ahmad Muzaffar

Post Reply
Tanwir Phool
-
-
Posts: 2175
Joined: Sun May 30, 2010 5:06 pm
Contact:

TaareeKh-e-wafaat-e-Mahmood Ahmad - Tanwir Phool

Post by Tanwir Phool »

http://www.abitabout.com/Tanwir+Phool
http://duckduckgo.com/Tanwir_Phool
http://www.allaboutreligions.blogspot.com
User avatar
Nayeem Khan
-
-
Posts: 280
Joined: Sun Jan 13, 2008 2:32 pm
Location: Mahbubnagar, India.
Contact:

Re: TaareeKh-e-wafaat-e-Mahmood Ahmad - Tanwir Phool

Post by Nayeem Khan »

:inna:
Tanwir Phool
-
-
Posts: 2175
Joined: Sun May 30, 2010 5:06 pm
Contact:

Re: TaareeKh-e-wafaat-e-Mahmood Ahmad - Tanwir Phool

Post by Tanwir Phool »

:salaam2:
محمود احمد مرحوم کے بارے میں مزید تفصیلات ملاحظہ کیجئے

2014-05-23 3:15 GMT-04:00 Rashid Ashraf <zest70pk@gmail.com>:

محترم آصف صاحب
گزشتہ پیغام خدا جانے کیسے ادھورا چلا گیا۔ اسے مکمل پیش کررہا ہوں

ممکن ہو تو اسے محترم سید راشد اشرف کو بھی بھیج دیجیے گا۔


محمود احمد صاحب کا جس روز انتقال ہوا، اس روز ہی مجھے اطلاع مل گئی تھی، صدمے کی کیفیت میں تھا لہذا کچھ لکھ نہ سکا، کہہ نہ پایا۔ سید راشد اشرف صاحب میرے فیس بک کے احباب میں شامل ہیں مگر وہ فیس بک کم کم ہی استعمال کرتے ہیں۔

جیسا کہ آپ نے فرمایا، آپ کا تعلق خاص تو خیر ان سے 1950 سے تھا مگر خاکسار بھی ان سے تعلق کا دعوی رکھتا تھا۔ گرچہ یہ تعلق محض دو برس کے قلیل عرصے ہی پر محیط تھا۔ اس کا آغآز اس وقت ہوا تھا جب میں نے کینیڈا میں قیام پذیر ایک صاحب کو گجرات کے پیر نصیر الدولہ کی ضخیم خودنوشت کی سافٹ کاپی ارسال کی تھی اور انہوں نے اس کے پرنٹ آؤٹ کے لیے محمود صاحب کو کہا اور یوں محمود صاحب سے میرا رابطہ قائم ہوا۔

آپ نے لکھا:
"محمود احمد مرحوم اردو ادب کے دلدادہ تھے اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔"

بجا فرمایا۔ میں عرض کروں کہ مجھ حقیر کو محمود صاحب سے یہ بات سننے کا شرف حاصل ہے کہ ان کا زیادہ تر وقت خاکسار کے ارسال کردہ مواد کے مطالعے میں گزرتا تھا۔ کتنی ہی ایسی باتیں ہیں جو رہ رہ کر یاد آرہی ہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی مراسلت کا مکمل ریکارڈ میرے پاس محفوظ ہے، کل اسی کو دیکھتا رہا اور اداس رہا۔

محمود صاحب کا ہر برقی پیغام یاد رفتگاں کے تذکروں سے پُر ہوا کرتا تھا۔ وہ پاکستانی کی صحافت کی تاریخ کے امین تھے۔ اس بات کا اندازہ مجھے ابتدا ہی میں ہوگیا تھا کہ میں ایک انتہائی باخبر اور جہاندیدہ شخص سے مخاطب ہوں اور پھر اسی مناسبت سے گفتگو کیا کرتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عنایتیں اور شفقتیں بڑھتی چلی گئیں اور میرے انداز مراسلت میں بھی ایک نوع کی بے تکلفی نے سابقہ لب و لہجے کی جگہ لے لی۔

ڈیڑھ ماہ قبل میں نے ان سے پرزور اصرار کیا کہ وہ اپنی خودنوشت لکھیں۔ پہلے تو ہچکچائے مگر پھر راضی ہوگئے اور پھر ایک روز انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ خودنوشت پر کام شروع کرچکے ہیں۔ یہ ایک خوش کن اطلاع تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے 5 ایسی تصاویر بھیجیں جو 50 ، ساٹھ اور ستر کی دہائی کی تھیں اور جن میں وہ ایک نوجوان کی صورت میں دکھائی دیتے تھے۔ ایک تصویر میں ان کے ہمراہ ضمیر جعفری مرحوم نظر آرہے ہیں، یہ 1965 کی تصویر ہے جو آپ پارہ کے ایک ‘ڈھابے‘ میں محفوظ کی گئی تھی۔ اسی طرح 1970 کے جنرل الیکشنز کی دو انتہائی یادگار تصاویر بھی تھیں جن میں وپ پاکستان ٹیلے وژن پر الیکشن کے ایک پروگرام میں مبصر کی حیثیت سے براجمان ہیں۔ ایک تصویر میں وہ پاکستان پریس کے ابصار رضوی کے ہمراہ ہیں جبکہ ایک دوسری تصویر سردار نشتر کے آخری دنوں کی یادگار تصویر ہے۔ غالبا وہ محمود صاحب ہی ہیں جنہوں نے سردار نشتر کا بازو تھاما ہوا ہے۔


ڈیڑھ ماہ قبل ان پر بیماری کا شدید حملہ ہوا تھا۔ وہ اپنی صاحبزادی سے ملاقات کے لیے امریکہ گئے تھے جہاں سردی کا شکار ہوئے اور اسپتال میں داخل کیے گئے۔ انہوں نے اپنے صاحبزدے سے کہا کہ راشد اشرف کو اطلاع دے دینا۔ مجھے اجب یہ اطلاع ملی تو بے چین ہو کر فون کیا۔ اس سے قبل میری ان سے فون پر کبھی بات نہ ہوئی تھی، صد حیف کہ بات تو اس روز بھی نہ ہوپائی، اس لیے کہ وہ صاحب فراش تھے۔ ان کے بیٹے نے دعا کا کہا اور بتایا کہ ان کی حالت نازک ہے۔
قصہ مختصر وہ سنبھل گئے اور برقی پیغامات کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ مگر ان پیغامات میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ان کی دگرگوں صحت کے احوال بھی جگہ پانے لگے۔

یہ وہی دن تھے جب انہوں نے مجھے سات آٹھ ایسی تصاویر بھیجیں جن میں وہ بیماری سے وقتی طور پر نجات پانے کے بعد اپنے اہل خانہ کے ہمراہ نظر آرہے ہیں۔

خاکسار کی جانب سے بھیجے جانے والے پرانی کتابوں کے اتوار بازار کے احوال کے مطالعے کا انہیں چسکا لگ گیا تھا، بہت محظوظ ہوتے تھے، انتظار میں رہتے تھے اور اگر کسی اتوار کو ہمارا وار خالی جاتا یعنی کتابیں نہ ملتیں تو ای میل کے ذریعے استفسار کرتے تھے۔ اتوار بازار کی رودادوں میں جن کتابوں کا ذکر آتا تھا، ان پر تبصرہ ضرور کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مجھے معروف صحافی مولوی محمد سعید کی یادگار خودنوشت "آہنگ بازگشت" ملی۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا اسلوب جو مختار مسعود کی آواز دوست سے کسی طور کم نہیں ہے لبکن بعض مقامات پر آگے نکلتی محسوس ہوتی ہے مگر افسوس کہ اس کتاب سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ "آہنگ بازگشت" کے ذکر پر ان کا فوری جواب آیا، کہنے لگے کہ مذکورہ خودنوشت میں ان کا تذکرہ بھی موجود ہے اور کئی جگہوں پر ہے۔ ادھر یہ بات سن کر میں چونک گیا تھا۔ یہ
وہ وقت تھا جب میں نے ان سے خودنوشت لکھنے کی درخواست کی تھی۔

ابتدا میں وہ رومن میں لکھا کرتے تھے جس کو پڑھنا، آپ جانتے ہی ہیں کہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ ایک روز میں نے انہیں اردو ٹائپنگ کا لنک بھیجا جسے پا کر وہ بے انتہا خوش ہوئے اور اس کے بعد ان کے برقی پیغامات طویل ہوتے چلے گئے تھے۔

ان کی ایک ای میل پیش کررہا ہوں جسے انہوں نے کرامت اللہ غوری صاحب کو لکھا تھا:

My dear Ghouri Saheb: I am sorry I could not mmake it to the
launching of your book on Sunday. I am still unable to move
around on my own and get tired quickly. However, I heard about
the proceedings this morning from Col Anwar.
A little later I opened my computer to check my e mails and found
the following write up from my friend Mr Rashid Ashraf whom you
know well. I did not find your name in the list of addressees so I
thought of sharing it with you as major part of it relates to you
and your book. I read the column of Javed Choudhari in the daily
Express but it only concerning the "steel nerves" of Gen Zia. He
has neither mentioned you or the book for reference. Typical of
him. I know Javed well and during 2005 had to represent my newspaper
and its sister TV channel, AAJ against which he had launched prosecution
for violation of Copyrights Act. Dr Anwer Sadeed is a very matured columnist
and let us wait for his opinion. He writes for the Nawa-i-Waqt and I will
request Mr Rashid Ashraf to copy his review to you and me when published.
Sincere regards, Mehmud​

اسی طرح بیماری سے اٹھنے کے بعد کی یہ ای میل دیکھیے جس میں ان کی گزشتہ زندگی کی ایک مختصر سی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے:

راشد صاحب : سلام : میں بہت بہتر ہوں لیکن کمزوری بہت ہے اور antibiotics کے اثرات اب بھی ہیں . کمپیوٹر پر بیٹھوں تو جلد ہے تھک جاتا ہوں. لیکن walker کی مدد سے چل پھر لیتا ہوں -
میں نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا نصراللہ خان عزیز جو تسنیم کے ایڈیٹور تھے کو تو جانتا تھا جناب نصراللہ خان کو جو کراچی کے اخبارات سے منسلک رہے کبی نہ مل سکا. کراچی میں میرا دو سالہ قیام پاکستان مسلم لیگ کی ملازمٹکے وجہہ سے جب میں سردار عبدالرب نشتر مرحوم اند انکے خان عبدلقیوم خان کا سیکرٹری رہا - سردار صاھب کی وفات اور نے سربراہ کے یلیکٹوں تک میں مسلم لیگی پارلیمنٹری پارٹی میں دو مہ کام کیا جسکے لیڈر چندریگر صاھب تھے اور سیکرترے یوسف ہارون - اور یہی میری کل متاع حیات ہے - باقی وقت صحافت میں "نے نوازی" میں گزرا جو بقول اقبال:
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی -
اب تھک گیا ہوں اور اجازت چاہتا ہوں. خدا حافظ. محمود

گرچہ ان کی عمر اسی سے تجاوز کرچکی تھی مگر مجھے اس بات کا شائبہ بھی نہیں تھا کہ وہ یک لخت اس طرح رخصت ہوجائیں گے۔ ان کے برقی پیغامات زندگی سے بھرپور ہوا کرتے تھے۔ کل میں نے مراسلت کا ریکارڈ نکالا تو دیکھا کہ آخری پیغام میں انہوں نے پسر چراغ حسن حسرت ظہیر الحسن جاوید صاحب کے ایک حالیہ مضمون پر بے انتہا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی رائے دی تھی۔ مذکورہ مضمون آزاد کشمیر کے ایک جریدے میں شائع ہوا ہے اور یہ جاوید صاحب کی اپنے والد گرامی سے متعلق وہ تحریر ہے جسے بہت پہلے منظر عام پر آجانا چاہیے تھا۔

یہ تمام بے ربط سی باتیں میں نے لکھیں اور یقینا آپ انہیں پڑھیں گے۔ نہ میں خود کو اس قابل پاتا ہوں کہ مزید کچھ کہہ سکوں، محمود صاحب کی شخصٰیت پر روشنی ڈال سکوں۔ جو پلے تھا، پیش کردیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر خودنوشت لکھوانے میں کامیاب ہوجاتا تو وہ ایک بڑی کامیابی ہوتی۔ ان کی یادداشت اس عمر میں بھی غضب کی تھی۔ یہ بھی میرے اصرار کی ایک بڑی وجہ تھی۔

محمود صاحب ایک صحافی تھے۔ ایک کھرے صحافی۔ ہمارے یہاں گزشتہ چند ہفتوں سے صحافت کے نام پر جو لغویات پیش کی گئی ہیں اور ملک میں اس کا جس قسم کا ردعمل آیا ہے، جس طرح کچھ لوگوں نے سارے معاملے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور جس بازاری انداز میں یہ سارا معاملہ اچھالا گیا ہے، جس طرح دیگر چینلز نے اسے کیش کرانے اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے مجھے چراغ حسن حسرت، مولانا ظفر علی خاں، شورش کاشمیری جیسے صحافیوں کے ہمراہ محمود صاحب بھی یاد آرہے ہیں۔

باقی رہے نام اللہ کا۔

آج کے یہ صحافی ۔۔۔۔ ان کے کیا کہنے۔ صحافت تو گویا ان کے گھر کی لونڈی ہے مگر جیلانی صاحب، شکایت یہ ہے کہ بے نکاحی رکھی ہوئی ہے۔

خیر اندیش
راشد اشرف

Inline image 1



2014-05-22 18:00 GMT+05:00 asaf jilani <asafjilani9@yahoo.co.uk>:

سید راشد اشرف نے یہ اندہ ناک خبر دی ہے کہ پاکستان کے ممتاز صحافی محمود احمد گذ شتہ پیر کے روز کناڈا میں حرکت قلب بند ہونے سے اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔ یہ خبر سن کر بے حد دکھ ہوا۔ میرا محمود احمد سے جن کو مرحوم لکھتے ہوئے دل چھلنی ہوتا ہے سن پچاس کے عشرہ سے تعلق تھا جب وہ مسلم لیگ کے قاید خان عبد القیوم خان کے پریس سیکر یٹری تھے ۔ اس کے بعد وہ لاہور میں خبر رساں ایجنسی پی پی آ ئی کےنمایندہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ سن ساٹھ کے اوائیل میں محمود احمد پاکستان ٹایمز کے نامہ نگار کی حیثیت سے دلی گئے ۔ اس زمانہ میں میں دلی میں روز نامہ جنگ کا نمایندہ تھا ۔ ہم دونوں نی کئی سال تک دلی میں کام کیا۔ وہ زمانہ بےحد اہم اور تاریخی تھا ۔ سن باسٹھ میں ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ جس کی وجہ سے دل شکستہ نہرو کے آخری دن تھے اور کانگریس کی نئی قیادت ابھر رہی تھی اس زمانہ کی محمود احمد مرحوم کی یادیں ابھی تک تازہ ہیں اور میرے ساتھ خزینہ کی مانند ہیں۔ صحافت انہیں کشاں کشاں متحدہ عرب امارات لے گئی اور اس کے بعد اپنے ایل و عیال کے ساتھ کناڈا منتقل ہوگئے ۔ محمود احمد مرحوم اردو ادب کے دلدادہ تھے اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ محمود احمد سے زیادہ خوش مزاج شخص میں نے بہت کم دیکھے ہیں ۔ ان کی صحبت خوش دلی کی ساتھ علم سے بھر پور ہوتی تھی ۔ اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند کرے ۔ میری دعا ہے کہ ان کی بیگم اور ان کے فرزند عابد اور دوسرے عزیز رشتہ داروں کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔ آصف ۔

--
From BazmEQalam
http://www.abitabout.com/Tanwir+Phool
http://duckduckgo.com/Tanwir_Phool
http://www.allaboutreligions.blogspot.com
Post Reply