کسی من چاہے کا پرتو کب تک یوں سامنے آتا رہتا ہے کہ جیسے وہ سامنے ہو؟ ۔۔۔۔ صرف چند برسوں کے لئے۔ پہلے بدن کا لمس ساتھ چھوڑتا ہے، پھر آواز معدوم ہوتی چلی جاتی لے اور کچھ عرصے بعد آنکھیں بھولتی ہیں، مگر مسکراہٹ بہت دیر تک ساتھ دیتی ہے لیکن ایک روز وہ بھی بجھتی ہوئی لو کی طرح تھرتھراتی ہوئی تاریک ہوجاتی ہے
(مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ’’خانہ بدوش‘‘ سے اقتباس)
(مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ’’خانہ بدوش‘‘ سے اقتباس)