دسمبر 1996ء میں کراچی کے ایک طرحی مشاعرے میں کہی گئی غزل۔
طرحی غزل
خودسر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
برتر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
کھلتا نہیں ہے کوششِ پیہم کے باوجود
کس در سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
اب دیکھیے مجسمہ میرا کہاں ہو نصب
بت گر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
کچھ اپنی بے گھری ہی بلاخیز کم نہ تھی
بے گھر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
اب دیکھیے گزرتی ہے کیا دل پہ عشق میں
‘‘پتھر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند’’
جس در کا ذکر سن کے ٹھٹکتے ہیں یار لوگ
اس در سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
اللہ! میرے دل کے سفینے کی خیر ہو
ساگر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
کب دیکھیے کہ ہوں مری آنکھیں لہو لہو
نشتر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
پہلے ہی دل فصیح نہ قابو میں تھا مرا
اوپر سے جا لڑی ہے نگاہِ بلا پسند
شاہین فصیح ربانی