پروفیسر رضیہ سبحان کا چوتھا شعری مجموعہ "مکا ں لا مکا ں " ک

Adabi aur tanqeedi mazaameen
Afsane aur tabsire

Moderator: munir-armaan-nasimi

Post Reply
sajhashmi
-
-
Posts: 554
Joined: Thu Oct 23, 2008 7:40 am

پروفیسر رضیہ سبحان کا چوتھا شعری مجموعہ "مکا ں لا مکا ں " ک

Post by sajhashmi »

پروفیسر رضیہ سبحان کا چوتھا شعری مجموعہ مکا ں لا مکا ں کا تعا ر ف
از قلم: -سیّد انور جاوید ہاشمی، اعزازی مدیر سہ ماہی تذ کر ہ کراچی

Yesterday at 12:29am ·
محترمہ رضیہ سبحان قریشی کا پہلا شعری مجموعہ ” سرد آگ“انگریزی نظموں کے منظوم تراجم پر مشتمل تھا جو نصاب میں بھی شامل تھیں اور جن کے مطالعے سے طلبہ و طالبات کو انگریزی ادبیات کو سمجھنے اور پھر
امتحانی پرچہ جات میں مد د مل سکتی ہے۔ خلیل احمد خلیل صاحب نے ہمارے ہمراہ اُن سے جب ملاقات کی اور انھوں نے اپنا دوسراوتیسرا شعری مجموعہ ” خاموش دستک“ 2002ء و ” سیپیاں محبت کی 2006ء ہم دونوں کو عنایت فرمائے تو فوری طورپر یہی تاثرّ پیش کیا کہ ان کی نظمیں بہت ہی عمدہ انداز میں کہی ہوئی لگتی ہیں اور
وہ خود بھی شاعری کی اس صنف کو اس لیے ترجیح دیتے،پسند کرتے ہیں کہ اس میں وسعت و پھیلائو کے شاعر کو زیادہ مواقع میسر آجاتے ہیں جب کہ غزل میں ردیف و قافیہ اور بحر کی قیود سے اظہار محدودترہوجاتا ہے۔ خیر یہ اُن کا اپنا خیال ہے ہمیں تو قتیل غالب اور قتیل غزل کہلانے کا شوق ہے سو ہم دو مصرعوں میں کہی گئی بات کو ہی ایک مکمل مضمون فراردیتے گردانتے ہیں ؎
کسی بھی نا م سے مجھ کو پکا ر و ::: محبّت کی زباں تو عالمی ہے ”مکاں لا مکاں صفحہ 169“
؎کسی کے نا م کی تختی لگائیں کیا دل پر::: خوُد ا پنے آ پ کی پہچا ن بن کے جیتے ہیں
؎ پہچانتے ہیں لوگ محبّت کے نام سے ::: کیا ہے جو گھر پہ نا م کی تختی نہیں لگی
یہ اشعار اُن کے چوتھے مجموعے ” مکا ں لا مکا ں “ کے ہیں جن پر گفتگو کے لیے یہ تمہید باندھی گئی ہے۔ ”خاموش دستک“ کے فلیپ پر محترم تابش دہلوی نے مطلع کیا کہ ” سرد آگ“ کی شاعرہ کو تین مختلف انعامات و اعزازات سے بھی سرفرازکیا گیا جب کہ پروفیسرسحرانصاری نے ”سیپیاں محبّت کی“ میں محترمہ کی شاعری پراظہار خیال کرتے ہوے ”تجربے کی تپش “پر زور دیا اور لکھا کہ 'ان تینوں کتابوں میں رضیہ نے زندگی کے جو نشیب وفرازطے کیے ہیں اُن کا پوراشعور موجودہ کلام ”سیپیاں محبّت کی “ میں جھلکتا ہے.اُنھیں خود بھی احساس ہے کہ تجربے کی تپش نے اُن کے طرز احساس کو کندن بنادیا ہے اب وہ ” ایک ایسی شخصیت بننا چاہتی ہیں جس میں دریائوں کی طغیانی نہیں بلکہ سمندرکاساٹھہرائو ہو''۔خود رضیہ سبحان قریشی نے حرف آغاز میں کہا کہ ” زندگی کی ”سرد آگ“ کی چنگاریاں سلگاتے ہوے اور ’ خاموش دستک“ دیتے ہوے میں آپ کے لیے ” سیپیاں محبت کی “ لے آئی ہوں۔۔۔میں سمجھتی ہوں کہ اب میں کتاب زندگی کو بحسن و خوبی پڑھنے لگی ہوں ،سمجھنے لگی ہوں مگر زندگی میں بھی اپنے ردعمل پر اختیار حاصل نہ کرسکی اور میرے خیال میں ہر انسان عمر کی ہر منزل میں شاید اسی کوشش میں لگارہتا ہے۔۔۔۔کاش مجھے تصوّف اور آگہی کی وہ منزل نصیب ہو جس کی میں تمام عمر متلاشی رہی،کاش۔۔۔“
چوتھا مجموعہ جس پر گفتگو کا سراتاحال ہاتھ نہیں آیا 176 صفحات پر مشتمل ہے 160 صفحات پر تعارف کلام اورشاعرہ کی اپنی بات کے ساتھ حمد،نعت،غزلیں اور نظمیں موجود ہیں جب کہ 16 صفحات یعنی مجموعے کا آخری جزو متفرقات اشعاروقطعات سے آراستہ کیے گئے ہیں۔ 1996-97 سے 2015ء جنوری تک ان چار مجموعوں کی شاعری ہم نے براہ راست سنی بھی پڑھی بھی اور فیس بک پر جس طور پر وہ سجا کر اپنی
تخلیقات پیش کرتی ہیں ان کی ستایش کا تو کوئی حساب ہی نہیں مگر اس کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں کہ آپ مشاعروں میں کس قدر مقبول ہیں یا آپ کے اب تک کتنے شعری مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔ بات مقدار کی
نہیں معیار کی ہوتی ہے میر کے بہتر72 نشتراور غالب کا سو صفحات کا دیوان جیسی کتابیں مجموعے تو نہیں آسکے ناں۔ فکر ہرکس بہ قدر ہمت اوست۔۔۔ اوپر اپنے نام و شناخت کے حوالے سے محترمہ نے جن شعروں میں اظہار کیا ہے اور” مکا ں لا مکا ں“ میں جس طور زندگی آموز و زندگی آمیز باتیں،جذبات،محسوسات،تجربات و خیالات ہم نے دیکھے وہ بلا شبہ رضیہ سبحان صاحبہ کو شاعرات کے ساتھ نتھی کرنے سے بچاتے ہیں محض اداجعفری،فہمیدہ ریاض،کشورناہید،پروین شاکر وغیرہ کے ساتھ اُن کو بریکٹ کرکے تانیشیت کی حد لگادینا ہرگز قرین انصاف نہیں۔ وہ عورت ضرور ہیں ایک نظم بھی انہوں نے لکھی” میں عورت ہوں“ وہ
شفیق و مہربان ماں،شریک حیات،استاد ہونے کے ناطے محبت کی سیپیاں لٹاتی رہیں مگر ان کی شناخت ایک شاعر کے طور پر ہی کی جانا چاہیے ؎جب تک مرے انفاس میں تُو دوڑ رہا ہے
تب تک یہ مری ز یست کا ہر لمحہ امر ہے ،،،حمد
ترے نام کردی ہے دھڑکن یہ دل کی۔۔۔۔تو ہی میری سانسوں میں اب گھل گیا ہے ”حمد“
اس انجمن فکر کو آقا ئے جہاں کی:
: انفاس کی خوش بو سے سجائیں تو عجب کیا
دھڑکن میں رہے گونج سدا حمد -خُدا کی:
: اور اشک مرے نعت سنائیں تو عجب کیا ”نعت“
آپ نے یہ شعر تو سنا اور پڑھا ہوگا
” خشک سیروں تن -شاعر سے لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے ا ک مصرعہ - تر کی صورت
اس موضوع ،اس خیال کو رضیہ سبحان قریشی کے ہاں دیکھیے ؎
کثیر- خون- دل سے سینچنا پڑتا ہےجذبوں کو:
:توپھر سچاّئی کے لہجے کی اک تصویر بنتی ہے
مکاں سے دور کہیں لامکاں میں رہنے کا ذکر اور خود کو زمیں پہ ہوتے ہوئے آسماں میں مکین کہنے والی
شاعرہ کہتی ہیں : خبر جو لینے چلے آپ حا لت دل کی:
مجھے خبر ہی کہاں کس جہاں میں رہتی ہوں
یہ ہے وہ لا مکاں ۔ زندگی ،زندگانی اور زیست یہ تینوں رضیہ صاحبہ کے ہاں مختلف انداز میں ملتے ہیں ؎
نہ میں زمیں کی طرح ہوں نہ آسماں کی طرح ۔۔' نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے یاد کیجیے
یہ زندگی ہے مری عمر ر ا ئیگا ں کی طر ح
؎ دل و ظر کی جنگ میں‌:: یہ زندگی کے پل گئے
؎اُسی کے نام کرجاتے ہیں عنوان محبّت ہم
کتاب -زیست میں بن کر نیا جو باب رہتا ہے
؎ وہ جس کی زیست کا مقصد خوشی ہماری تھی:: اسی کی بزم تمنا سے اشک بار آئے
؎صدیوں کی آگ بھی کبھی اُس کو نہ راکھ کرسکی
د ل کے چر ا غ سے سد ا ز یست کی تیر گی گئی
؎اس قدر ناز اُٹھایا نہیں جاتا مجھ سے:
: زندگی تجھ کو منایا نہیں جاتا مجھ سے
؎ اپنی آنکھوں میں ترا خواب سجایا ہی نہیں:: زندگی میں نے یہ احسا ن اُ ٹھا یا ہی نہیں
؎اجل تو آج آئی ہے مگر اس زیست کے ہم نے
کئی احساں اُٹھائے ہیں ترے ا حسان سے پہلے
؎حبس- زندگانی میں دل نے جب کبھی چاہا:: جسم نو کا ہر جھونکا قید میں بھی آیا ہے
؎ باد باراں کی نگاہوں میں نمی اچھی لگی:: ہم کو اپنی زندگی کی بے کلی اچھی لگی
قدر کب اس زندگی کی زندگی میں ہوسکی:
:موت آئی روبہ رو تو زندگی اچھی لگی
؎ زنگ آلود یادیں،شکستہ دلی:: زندگی کا یہی آ سر ا ر ہ گیا
؎زندگی کی چاہت بھی صرف تیری خاطر کی:: ورنہ ہم تو مٹ جاتے تم اگر مٹادیتے
؎یہی تو زندگی کا راستا ہے:: دیا جو دل جلائے وہ بجھادو
؎ا ک اپنی زندگی پہ کہاں ختم گردشیں
دنیا کو دیکھیے تو ہیں نقشے بدل گئے
الغرض زندگی کے نشیب و فراز،متنوع متفرق رنگ محترمہ رضیہ سبحان قریشی کی شاعری میں
اپنی تمام دل چسپیوں،دل کشیوں،حشر و عبرت سامانیوں کے ساتھ جلو گر و ضو ریز ہیں کبھی زندگی وسوسوں
کے درمیان گزرتی دکھائی دیتی ہے توزیست کی قید کاٹتے ہوے اندازیہ رکھا کہ پا بہ زنجیر ہوکر بھی فکر کو آزاد رکھا؛؎
میں غزل کہنے چلی تو مرے مالک نے کہا
ا پنے شعروں میں مرا آج تو چر چا کر د ے
بیائونڈ دی ٹایم پبلی کیشنز سہ ماہی اجراء پبلی کیشنز سے جنوری 2015ء میں اشاعت پذیر ہوکر اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتام اس شعری مجموعے مکا ں لا مکا ں کی تقریب پذیرائی بھی ہوچکی اور محترمہ رضیہ سبحان قریشی کراچی میں مختصر قیام کے بعد واپس امریکا چلی گئیں تاہم ان کا فیس بک کے قارئین و ناظرین سے رابطہ بدستور بحال ہے اور وہ نئے پرانے کلام کے ساتھ اپنی موجودگی اور شاعرانہ تگ و دو سے ہم سب کو واقف و آگاہ کرتی رہتی ہیں۔خدا کرے کہ ان کی سخن گوئی کا یہ سلسلہ تا دم آخر برقرار رہے اور وہ
آگہی کی اس منزل کو کام یابی کے ساتھ پا جائیں جس کی تمام عمر متمنی و خواہاں رہی ہیں۔سیدانورجاویدہاشمی
30 جولائی 2015 کو پوسٹ کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔کراچی پاکستان
Post Reply