انسان انسانیت اور ہم

Adabi aur tanqeedi mazaameen
Afsane aur tabsire

Moderator: munir-armaan-nasimi

Post Reply
Muzaffar Ahmad Muzaffar
-
-
Posts: 1258
Joined: Sun Feb 12, 2006 1:40 pm
Location: London, England
Contact:

انسان انسانیت اور ہم

Post by Muzaffar Ahmad Muzaffar »

انسان انسانئیت اور ہم، تعلیمی انقلاب بپا کر کیسے انسانئیت کی خدمت کی جائے؟
نقاش نائطی


اس دنیا میں رہنے والے تقریبا سبھی لوگ کسی نہ کسی  ایک مذہب سے جڑے ہوئے ہیں ہر مذہب انسانئیت کا درس سکھاتا یے.  انسانوں  کی خدمت کرکے ہی بھگوان اللہ کو خوش کیا جاسکتا پے. غرباء و مساکین کی مدد ہر ممکن طریقے سے کی جائے. بنا مذہب و ملت کے فرق کے انسانئیت کی خدمت سے ہی پرماتما ایشور اللہ کا قرب حاصل کیا جاسکتا پے. 
کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کے تن ڈھانپنے کا بندوبست کرنا بے،  بیمار و مہلک امراض کے غریب مریضوں کو بہتر علاج مہیا کر ان میں جینے کی آس جگانا، بن چهت سڑک کنارے زندگی بسر کرنے والوں کو گھر کی چھت مہیا کرنا،شادی کی عمر تجاوز کرتی ڈھلتی جوانی کی دہلیز پر کهڑی بن بیاہی بچیوں کی شادی کا بندوبست کرنا  یہ سب احسن کام ہیں  لیکن ان تمام کاموں سے اوپر غریب بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا انہیں اپنی اور اپنے آل  کی رزق کمانے کے لائق بنانا سب سے اہم کام ہے. ایک بچے کی کفالت اسے اعلی تعلیم دلوا  کر اسے خود کفیل بنانا ، کئی غریبوں کو کھانا کهلانے اور دیگر کئی خیر کے کام کرنے سے بہتر عمل یے. 
    کسی غریب کو چهوٹا موٹا کاروبار سیٹ کرواکر دینا یا اس کے لائق کسی معاش یا کاری گری میں اسے یکتا بنا کو اس کو خود کفیل بنانا بھی بہت سے خیر  کے کاموں سے بہتر عمل یے.
کوئی بھیک مانگنے والے کسی نوجوان کو مکرر ملاقات کر، اس میں کوئی ہنر تلاش کر، اس میں موجود ہنر کے روزگار پر اسے متمکن کرنا گویا ایک گداگر کو عزت والی رزق کا خود کفیل بنانے والا عمل یے. 
آللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں بھیک مانگنے والے کو کلہاڑی دلواکر جنگل سے لکڑیاں کاٹ شہر میں بیچنے کی تجارت پر معمور کیا گیا تھا.  اس گھرانے کو بھی ہم جانتے ہیں جنہوں نے گاؤں کی گلیوں بھیک مانگتے بچے کو خرید کر اسے پال پوس کر  لائق بنایا تھا جس نے انکی رضامندی سے ان ہی کی ہدایت پر اپنے لے پالک ماں باپ سے قبل ساٹھ کی دہائی میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی تھی.
 
بنگلہ دیش میں بھیک مانگنے والے ہزاروں فقیروں کو پہلے بنگلہ دیشی  نوبل انعام یافتہ  یونس خان نے آج سے دس پندرہ  سال قبل ہاتهوں میں موبائیل  تھما ،مارکیٹ میں لوکل کال کے متلاشی  لوگوں کو کال کروا ، عزت کی روٹی کمانے کا ہنر سکھلایا  تھا. آج بھی موبائل کرنسی یا دوسری بہت سی چهوٹی چهوٹی چیزوں کو سڑکوں پر بیچنے کے تاجر پیدا کیئے جاسکتے ہیں.
آج سے بارہ  پندرہ سال قبل بحرین کے بازاروں کی سڑکوں پر پهیری کرکے کمانے والے ایک کیرالہ کے نوجوان سے پم. متعارف ہیں جس نے ہمت لگن سے سڑکوں پر مال خود بیچتے بیچتے، تهوک پر سستا مال زیادہ مقدار خرید کر کیرالہ کے اور بہت سے بیروزگار  نوجوانوں  کو اس  پهیری کے دهندہ پر لگا کر ، پهیری کرنے کا منظم  گروپ قائم کیا تھا. تھوک مال مسلسل خریدتے خریدتے سستا مال چائنا سے امپورٹ کرنا شروع کیا تھا.  آج پندرہ سالوں بعد آٹھ تا دس ہزار کروڑ کا بزنس ایمپائر قائم کر خلیج کے نامچین تاجروں کی صف میں اس نے اپنا مقام متمکن  کرلیا ہے.

عراق کے ریگزار پر اس تپتی دھوپ میں گاڑیوں  میں پیٹرول بھرنے پر معمور نوجوان اپنے عزم و استقلال سے تیس چالیس سال میں ہزاروں لاکهوں  کروڑ کا صناعتی ایمپائر، دھیرو بھائی امبانی قائم کرسکتا یے.  چوپائی کی بیچ پر  ساٹه ستر سال قبل گرمی کے دنوں ٹهنڈے مٹکے کا پانی بیچ کر پیسہ ہیسہ جوڑنے والا ہندستان کا آٹوموبائل کنگ برلا بن سکتا ہے. ہبلی دهارواڑ  روڑ پر سائکل ریپئر کا ٹهیلا لگانے والا بہت بڑا انڈسٹریلسٹ کرلوسکر بن سکتا ہے تو ہم  آپ  کی مدد سے معاشی استحکامئیت پانے والا کوئی غریب نادار بچہ کل کا امبانی برلا یا کرلوسکر کیوں نہیں بن سکتا؟
کوئی  بنگلہ دیش  جاکر ، نوبل انعام یافتہ مائیکرو مین یونس خان کا معاشی انقلاب تو دیکھ آئے کہ اس انقلاب کے نتیجہ میں کتنے بیروزگار نوجوان، کتنے بھیک مانگ کر دو وقت کی روٹی کمانے والے، آج کروڑ پتی تاجر بنے عزت و شان سے زندگی گزار رہے ہیں . چلیں ہم آپ بھی اپنی استطاعت کے مطابق اس انقلاب کو اپنے معاشرے میں بپا کرنے کی جستجو میں آج ہی سے پہل شروع کرتے ہیں. امید کی شمع کو روشن کیا جائے. آج کی یہ مدھم روشنی کل انشاءاللە شعلہ بن غربت و افلاس کو جلا،ختم کرنے کا عزم اپنے میں پاسکتی ہے. عہد کریں اپنی زندگی میں کم از کم ایک دو بے روزگار نوجوان کو خود کفیل بنانے والے، کسی روزگار کا ماہر بنائیں گے. کسی نادار ذہین بچے کی تعلیمی کفالت اپنے ذمہ لیکر، اسے اس کی آل کا پالن ہار بنانے میں اس کی مدد کریں گے.اپنے اس مشن کو آگے بہت آگے تاقیامت تک لے جانے کے لئے،اور آخرت میں ثواب جاریہ کا لا محدود انبار اپنی موت بعد آخرت کے ان کے خزانے میں بھیجے جانے کا بندوبست کرنے کے لئے، کفالت میں لینے والے پر بچہ سے اسکو تعلیم کے زیور سے آراستہ کئیے جانے کے قرض حسنہ سے سبکدوشی کرنے کی خاطر، تعلیم کے اختتام بعد، اسکو حاصل تعلیمی معیار کے بقدر، اس کی معاشی زندگی کی شروعات ہونے پر، کم از کم تین  غریب و نادار مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت کا اس سے حلف لیا جاسکتا ہے. جو اس کی معاشی زندگی کے پہلے پانچ سال میں پہلے بچہ کی شکل، دوسرے پانچ سال دوسرے بچہ کی شکل، اور تیسرے پانچ سال کے عرصے میں تیسرے غریب بچے کی تعلیمی کفالت کی ذمہ داری اس مکفول پر ڈال، اسے اس کا مکلف بنا، اس کار خیر کے کام کو حیات دوام  بخشا جاسکتا ہے.
3x3=9×3=27×3=81×3=
243×3=729×3=2177
کوئی اگر ایک بچے سے اس تعلیمی کفالتی نظم پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہو تو تین چار سال بعد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے والا غریب نوجوان اپنے معاشی سفر کے پانچ سال بعد دوسرے غریب بچہ کی کفالت شروع کر آئیند پندرہ سالوں میں تیں مزید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس کفالتی نظم میں اس کار خیر کو آگے لیجا نے پر معمور کردے گا. اور ہر پندرہ سال بعد تین سے نو اور نو سے ستائیس اور اکیاسی ہوتے  ہوتے ساٹھ ستر سال کے عرصے میں ہم آپ کے ایک مکفول بچے کی معرفت کم و بیش دو ہزار بچوں کو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کر، اس تعلیمی انقلاب کو آگے اور آگے لیجا نے میں منہمک ہوجائیں  گے. ہم آپ کا ایک بچہ سے شروع کیا پودا ساٹھ سال بعد دو ہزار کی کفالت کرسکتا ہے تو ہند بھر میں ہزاروں غریب بچوں کی کفالت لیتے اس سسٹم کو آندھی اور طوفان میں بدل کر نصف صد میں،صد فی صد تعلیم عام کی جاسکتی ہے. یقیناً  یہ ایک مفروضہ ہے. اس کی شروعات آج سے دس بارہ سال قبل، اپنی محدود صلاحیتوں سے ہم کرچکے ہیں. لیکن اس تعلیمی کفالت والے نظم کی افادئیت کو مختلف پلیٹ فارمز پر تقاریر کی شکل، مضمون نویسی مقابلہ کی صورت، آپس میں بحث و تکرار کر، اس کی افادئیت کو عام کر اس کفالتی تعلیمی  نظم کو تعلیمی معاشی و معاشرت طوفان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے. کل کو اٹھنے والے معاشی استحکامئیت کے اس طوفان کو کهڑا کرنے میں کسی نہ کسی اعتبار سے ہم آپ کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا یے.  و ما علینی الا البلاغ

__._,_.___
Post Reply