اونچی سسرال۔
از ۔۔۔ ابو طارق حجازی
اس سال اس نے بی اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ ماں باپ کو شادی کی فکر تھی اسکی خالہ کی ایک لڑکی تھی لیکن وہ میٹرک پاس تھی۔ غریب خاندان تھاسب نے اس طرف سے نگاہ ہٹالی انکا ارادہ کسی بڑے گھر میں شادی کرنے کا تھا تاکہ اونچی سسرال ملے اسی درمیان انکی نگاہ ایک اخباری اعلان پر پڑی۔ نواب مرزا کی بیٹی تھی دبئی میں بزنس تھا، شاندار کوٹھی تھی، بڑی بڑی کاریں تھیں بس سب کا دل اس پر ریجھ گیا اور فوٹو دیکھ کر شادی کی بات پکی کردی۔ انہوں نے سوچا اسکو بیوی تو مل ہی جائیگی ساتھ میں اور بہت سی چیزیں بھی حاصل ہوجائیں گی۔
بس اس دن جب وہ گھر میں داخل ہوا تو سارا گھر اسے مبارکباد دینے لگا۔ اسکی شادی امیرہ بیگم سے طے ہوگئی تھی اب اسکو دبئی جانا تھا اور وہیں نکاح ہونا تھا۔ دو ہفتے میں اسکا ویزا اور ٹکٹ بھی آگیا جہاں فیکس میں بہت سی نصیحتیں لکھی تھیں وہاں یہ بھی لکھا تھا کہ تم ڈرائیونگ سیکھ کر لائسنس بھی بنوالینا بس اب اسکا دماغ ہوا میں اڑنے لگا۔ شاندار کوٹھی، خوبصورت بیوی، امریکن کار، سمندر کے ساحل کی سیر اور بس عیش ہی عیش معلوم ہوا اس کے ہونے والے خسر صاحب کا بہت بڑا بزنس ہے بہت سے ملازم ہیں بس وہ دفتر میں بیٹھ کر حکم چلایا کریگا۔
خدا خدا کرکے وہ دن آیا اور تسکین خان دولہا بن کر بہن بھائیوں سے رخصت ہوا۔ دبئی ایئرپورٹ پر اسکے ہونے والے سالے اور سالیاں موجود تھے جنہوں نے دولہا بھائی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کار میں بٹھا کر اپنی کوٹھی پر لے گئے۔ دو دن بعد شاندار ہوٹل میں شادی ہوئی اور امیرہ بیگم دلہن بن کر اپنی کوٹھی کے ایک سجے سجائے کمرے میں آگئیں۔تسکین اپنی دلہن کو دیکھ کر حیران رہ گیا اسکا اپنا وزن ۶۰کلو گرام تھا لیکن دلہن ۱۶۰کلو کے قریب تھی اس نے ڈرتے ڈرتے دلہن سے اسکا نام پوچھا فرمایا نام تو میرا امیرہ ہے لیکن گھر والے پیار سے کْن کْن کہتے ہیں تسکین نے ضبط کرتے ہوئے کہا یہ نام تو بہت اچھا ہے لیکن میں تم کو پیار سے ٹن ٹن کہا کرونگا (ٹن ٹن ہندوستانی فلموں میں سب سے موٹی عورت کا نام تھا) خیر۔ تسکین نے اپنی شاندار شادی کی وڈیو فلم جو بڑے ہوٹل میں تیار ہوئی تھی اپنے گھر بھیج دی تاکہ اسے دیکھ کر ان سب کو بھی تسکین ہوجائے۔
چند ہفتوں کی دعوتوں اور خاطر مدارات کے بعد تسکین نے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا۔ اسکے سسر نواب مرزا تصدق حسین خان برسوں سے دبئی میں کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ دن بھر کپڑے کی گانٹھیں کسٹم سے آتی رہتی تھیں اور اپنے ایجنٹوں کو بٹتی رہتی تھیں۔ مرزا صاحب کی دو بیٹیاں تھیں۔ شہزادی بیگم اور امیرہ بیگم۔ دونوں ایک ہی سائز کی تھیں۔ بڑی بیٹی کے تین بچے تھے انکی شوہر سے علیحدگی ہوگئی تھی یا یوں کہیے کہ داماد صاحب خود مفرور ہوگئے تھے۔ شہزادی بیگم کے تینوں بچے اسکول جاتے تھے ایک کا اسکول مشرق میں تھا دوسرے کا مغرب میں تو تیسرے کا شمال میں جبکہ مرزا صاحب کی کوٹھی جنوب میں تھی۔
ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک دن شہزادی آپا نے بڑی لجاجت سے تسکین سے کہا بھائی ہمارا ڈرائیور ایک ہفتے کی چھٹی اپنے وطن کفرستان گیا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ذرا آپ بچوں کو اسکول پہنچا دیں۔ تسکین نے ازراہ اخلاق کہا کیوں نہیں، کیوں نہیں۔اس میں حرج کیا ہے۔
بس انہوں نے اپنی پرانی ٹیوٹا کی چابی اسکو دیدی تسکین نے بچوں کو لیا اور 45کلو میٹر گاڑی چلا کر تینوں کو اسکول پہنچا دیا۔ کچھ دیر بعد دوپہر کو کھانا کھا کر ذرا آرام کرنے کو ہی سوچا تھا کہ فون آیا بچوں کو چھٹی ہوگئی ہے وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں بس تسکین تیار ہوکر اپنے مشن پر روانہ ہوگیا۔ دوسرے دن ایسا ہی ہوا پھر تیسرے دن، چوتھے دن۔ ایک ہفتہ گزر گیا پھر دوسرا ہفتہ بھی گزر گیا پتہ نہیں انکا ڈرائیور کفرستان گیا تھا یا قبرستان وہ پلٹ کر نہیں آیا۔ گھر کی ایک ملازمہ نے بتایا کہ بیگم نے ڈرائیور کو الگ کردیا ہے بس پھر کیا تھا تسکین نے بازار سے ڈرائیور کی یونیفارم خریدی اور اسے پہن کر اپنے جہیز کی نوکری میں لگ گیا۔
ایک دن جب وہ ا سکول کے باہر کئی ڈرائیوروں کے ساتھ بچے کے انتظار میں کھڑا تھا تو ایک بوڑھے ڈرائیور نے کہا تم فیملی ڈرائیور ہو تسکین نے اثبات میں سر ہلادیا پھر اس نے پوچھا کیا نام ہے تمہارا ۔ تسکین نے جواب دیا مسکین خان بہادر بوڑھے ڈرائیور نے پھر کہا اس نوجوانی میں یہ کام کرتے ہو کوئی اور کام ڈھونڈ لو۔ تسکین نے کہا کہ ڈھونڈ تو لوں لیکن بیوی ہاتھ سے نکل جائیگی۔خیر اب زندگی ڈگر پر آگئی تھی وہ روز سویرے اٹھتا تینوں بچوں کو اسکول پہنچاتا واپسی پر سبزی گوشت لاتا کبھی فرمائش کرکے پائے اور پسندے لانے کیلئے گوشت منڈی جانا پڑتا پھر دوپہر کو بچوں کو اسکول سے واپس لاتا اور کبھی کبھی شہزادی آپا اور ٹن ٹن کسی سہیلی کے یہاں ملنے جاتیں تو انکو پہنچاتا اور رات گئے واپس لاتا۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی آہستہ آہستہ ایک سال گزر گیا گھر سے بلانے کے بار بار خط آرہے تھے۔ ادھر روز کی بھاگ دوڑ سیے اسکی طبعیت خراب رہنے لگی اور وہ کافی کمزور ہوگیا۔ ایک دن بچوں کو اسکول پہنچانے میں اسے ذراا دیر ہوگئی بس شہزادی بیگم برستی ہوئی اسکے کمرے میں داخل ہوئیں فرمانے لگیں میں نے ایسا کم ہمت آدمی آج تک نہیں دیکھا جو ذرا سا کام کیا آپڑا کہ بیماری کا بہانہ بنالیا۔ اللہ بھلا کرے ان بچوں کے باپ دن بھر کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے تھے اور ذرا ف تک نہیں کرتے تھے۔ اس بات پر تسکین کو بھی غصہ آگیا اس نے جھلا کر کہا میں اس گھر کا داماد ہوں کیا آپ نے مجھے بھاڑے کا ٹٹو سمجھ رکھا ہے۔ شہزادی بیگم کب دبنے والی تھیں فوراً جھلا کر بولیں کون کہتا ہے تم بھاڑے کے ٹٹو ہو تم تو بے بھاڑے کے ہو۔بس اب کیا تھا تسکین کو اپنے منصب کا پتہ لگ گیا تھا اسکے دل نے کہا:
کہاں کا عشق کیسی وفا جب سر پھوڑنا ٹھہرا!
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
تسکین نے جلد ہی واپس جانے کا پروگرام بنالیا۔ مرزا صاحب نے واپسی ٹکٹ کا انتظام کردیا سب لوگ ایئرپورٹ پہنچانے آئے سب سے رخصت ہوکر تسکین نے آخری نظر اپنی ٹن ٹن پر ڈالی اور ایک لفافہ اسکے ہاتھ میں دیکر جلدی سے جہاز کی سیڑھوں پر چڑھ گیا۔ ٹن ٹن نے گھر جاکر لفافہ کھولا اس میں لکھا تھا۔
’’تمہاری آپا کا شوہر بہت خوش قسمت تھا جو جلد ہی نجات پا گیا میں بھی اسی راستے پر جارہا ہوں تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘۔
جہاز دبئی سے اڑنے کے بعد اسے یاد آیا کہ ایک دن مولوی صاحب وعظ میں فرما رہے تھے حضور کریمﷺ ے فرمایا شادی کرو مال کے لئے جمال کیلئے خاندان کیلئے اور دینی اخلاق والی عورت سے۔ اسکے علاوہ جو شادی دیگر مراعات حاصل کرنے کے لئے کی جائے وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ افسوس اس نے اپنی شادی میں کچھ نہیں دیکھا اس کو توکوٹھی، بنگلہ، بڑی کاریں اور دبئی کے قیام پر ہی نظر تھی جسکے نتیجے میں یہ خواری حاصل ہوئی اس نے اپنی ڈائری نکال کر لکھا خرباش خانہ زاد مباش (چاہے گدھا بن جا لیکن گھر داماد نہ بن)
Oonchi Susraal
Moderator: munir-armaan-nasimi
- Abu Tariq Hijazi
- -
- Posts: 77
- Joined: Sat Jul 03, 2010 10:25 am
- Location: Jeddah, Saudi Arab
- Contact:
Re: Oonchi Susraal
جناب ابو طارق حجازی صاحب کی کہانی کا کمال۔۔۔۔
یک سطری جملوں کے جامِ جم میں زندگی کےراز سمیٹ دیئے ۔ اب جس کو حسنِ بصیرت میسر ہو وہ اپنے حسنِ تصور سے ایک عالم کی سیر کرلے۔
کہانی کے مرکزی خیال سے جڑی بات کو دیکھیں ۔گھرہستی کو سکھ چین باٹنے والے گن پانے کی تمنا اپنی جگہ عظیم تر ہےلیکن جہاں جہاں اولین فیصلوں کا قطب نما ذرا سا بہکا تو سفرِ حیات کسی کے قابو میں نہیں رہتا۔ ابتدائی بھوک کی بھٹی کی جھلستی آگ؛ اکثر جوانوں کو غیرت بیچ دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ جہاں ایسے جوانِ رعنا وسائل کی اکہری چاہ میں سب کچھ کھونے کو تیار رہتے ہیں۔اس کہانی میں یہی ہوا۔
ہمارے گھرانوں کی بڑھتی طلاق کا واویلہ کرنے والوں کو اپنے فہرستِ طمع نظر نہیں آتی۔ بس اخبار کی خبر کو تحقیق کی ضرورت سے بے نیاز سمجھے لیتے ہیں۔بلکہ اپنے برادری کے حسنِ سیرت رکھنی والے کرداروں سے پہلو تہی کرنا۔
بقول شاعر :
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا، کبھی اخبار ہوجانا
مجھے کہانی میں کرداروں کے نام کے معنوں سے ان کی صفات چھن چھن کر نہ برسے تو ’’ذہنی حبس‘‘ کا احساس ہوتا ہے۔ حجازیؔ صاحب نے دولت مند کا نام نواب ؔ مرزا اور بیٹی کا نام امیرؔہ رکھا اور نتائج سے بے پرواہ ہیرو کا نام تسکینؔ خان رکھا۔ساتھ ساتھ کہانی کو آگے بڑھانے والے جملےجیسے چٹکیاں لیتے ہوں۔جیسے ’’کن کن سے ٹن ٹن ‘‘ اور ڈرائیور کا لوٹ کرنہ آناجیسے قبرستان یا کفرستان کے ملک چلے جانا وغیرہ۔
آخر میں حدیثِ رسولﷺ جو انسانی تمدن کی فلاح کا قطب نام ہے اس پر کہانی کو استوار کیا اور قارئین کو رشتوں کے انتخاب میں کامران ہونے کا کلیہ رکھ دیا۔
میں جناب ابو طارق حجازی صاحب کو اس مختصر اور اثر پذیر کہانی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
فقط
نعیم جاوید
دمام۔سعودی عرب
nayeemjaved@gmail.com
یک سطری جملوں کے جامِ جم میں زندگی کےراز سمیٹ دیئے ۔ اب جس کو حسنِ بصیرت میسر ہو وہ اپنے حسنِ تصور سے ایک عالم کی سیر کرلے۔
کہانی کے مرکزی خیال سے جڑی بات کو دیکھیں ۔گھرہستی کو سکھ چین باٹنے والے گن پانے کی تمنا اپنی جگہ عظیم تر ہےلیکن جہاں جہاں اولین فیصلوں کا قطب نما ذرا سا بہکا تو سفرِ حیات کسی کے قابو میں نہیں رہتا۔ ابتدائی بھوک کی بھٹی کی جھلستی آگ؛ اکثر جوانوں کو غیرت بیچ دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ جہاں ایسے جوانِ رعنا وسائل کی اکہری چاہ میں سب کچھ کھونے کو تیار رہتے ہیں۔اس کہانی میں یہی ہوا۔
ہمارے گھرانوں کی بڑھتی طلاق کا واویلہ کرنے والوں کو اپنے فہرستِ طمع نظر نہیں آتی۔ بس اخبار کی خبر کو تحقیق کی ضرورت سے بے نیاز سمجھے لیتے ہیں۔بلکہ اپنے برادری کے حسنِ سیرت رکھنی والے کرداروں سے پہلو تہی کرنا۔
بقول شاعر :
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا، کبھی اخبار ہوجانا
مجھے کہانی میں کرداروں کے نام کے معنوں سے ان کی صفات چھن چھن کر نہ برسے تو ’’ذہنی حبس‘‘ کا احساس ہوتا ہے۔ حجازیؔ صاحب نے دولت مند کا نام نواب ؔ مرزا اور بیٹی کا نام امیرؔہ رکھا اور نتائج سے بے پرواہ ہیرو کا نام تسکینؔ خان رکھا۔ساتھ ساتھ کہانی کو آگے بڑھانے والے جملےجیسے چٹکیاں لیتے ہوں۔جیسے ’’کن کن سے ٹن ٹن ‘‘ اور ڈرائیور کا لوٹ کرنہ آناجیسے قبرستان یا کفرستان کے ملک چلے جانا وغیرہ۔
آخر میں حدیثِ رسولﷺ جو انسانی تمدن کی فلاح کا قطب نام ہے اس پر کہانی کو استوار کیا اور قارئین کو رشتوں کے انتخاب میں کامران ہونے کا کلیہ رکھ دیا۔
میں جناب ابو طارق حجازی صاحب کو اس مختصر اور اثر پذیر کہانی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
فقط
نعیم جاوید
دمام۔سعودی عرب
nayeemjaved@gmail.com
- Abu Tariq Hijazi
- -
- Posts: 77
- Joined: Sat Jul 03, 2010 10:25 am
- Location: Jeddah, Saudi Arab
- Contact:
Re: Oonchi Susraal
Dear Brother Naeem Javed sahab Assalamu alaikum vrb
It is quite long that we could not contact l each other on e-mail or phone. I saw your nice comments on my article Oonchi Susraal.
Now I have few more articles to post on Urdu Bandhan. But I for got my ref No. to open the site. I tried to contact Br.Salem Bashawar for a new password but failed.
Can you advise me his phone contact or e-mail or tell me how to get a new Password.
Wassalaam
Abu Tariq Hijazi
It is quite long that we could not contact l each other on e-mail or phone. I saw your nice comments on my article Oonchi Susraal.
Now I have few more articles to post on Urdu Bandhan. But I for got my ref No. to open the site. I tried to contact Br.Salem Bashawar for a new password but failed.
Can you advise me his phone contact or e-mail or tell me how to get a new Password.
Wassalaam
Abu Tariq Hijazi
- Abu Tariq Hijazi
- -
- Posts: 77
- Joined: Sat Jul 03, 2010 10:25 am
- Location: Jeddah, Saudi Arab
- Contact:
Re: Oonchi Susraal
Dear Br.Naeem. J. Asaalamu laikum vrb.
I want post my new article but I forgot Password. Plz tell me how to do.
Also quote your Ph.No.
Wassalaam
ATH
I want post my new article but I forgot Password. Plz tell me how to do.
Also quote your Ph.No.
Wassalaam
ATH