دبستان علم و ادب برطانیہ کے زیر اہتمام جشن تنویر پھول منایا گیا

Taazah bataazah adabi khabreN
Post Reply
Tanwir Phool
-
-
Posts: 2201
Joined: Sun May 30, 2010 5:06 pm
Contact:

دبستان علم و ادب برطانیہ کے زیر اہتمام جشن تنویر پھول منایا گیا

Post by Tanwir Phool »

Taqreeb-e-TP.gif
Taqreeb-e-TP.gif (26.4 KiB) Viewed 1619 times
Jashn-e-TanwirPhool.png-Rev.png
Jashn-e-TanwirPhool.png-Rev.png (347.44 KiB) Viewed 1619 times
TPinKhushguwarMooD.png
TPinKhushguwarMooD.png (337.17 KiB) Viewed 1092 times
MorePictures-Jushn-Resized.png
MorePictures-Jushn-Resized.png (338.42 KiB) Viewed 1091 times
Khiraaj-e-TaHseen-Alavi-Resized.png
Khiraaj-e-TaHseen-Alavi-Resized.png (338.24 KiB) Viewed 1091 times
https://youtu.be/sH_kGvUlJQk

https://youtu.be/7UH5BIRMvF4

https://youtu.be/jPD5xJFi5rk


https://youtu.be/12m82bF5aj0


http://www.urdunetjapan1.com/2021/11/21 ... l-usa-173/


https://youtu.be/-Dos5P0c0Yc


https://youtu.be/WSwMn0f7Nr8

https://www.youtube.com/watch?v=iR_8q4jDyVA

https://tarkeen-e-watan.com/archives/2341

https://youtu.be/p2UJAaVdWcg




پھول تو پھول ہے

صدارتی انعام یافتہ سر تنویر پھول صاحب کا تعلق اگرچہ پھول نگر سے ہے لیکن ان کے نام کیساتھ "پھول" کا لاحقہ جچتا ہے ان کے لہجے میں موجود ملائمت، لطافت، نزاکت، لطافت اور سلاست بالکل پھول جیسی ہے

گزرا ہوا سال ڈیڑھ جس کو ہم کرونائی دور بھی کہہ سکتے ہیں جس میں آن لائن مشاعروں کا دور شروع ہوا اور میری خوش قسمتی کہ مجھے اردو ادب کی جن نادر ہستیوں کیساتھ مشاعروں میں شرکت کا موقع ملاجن کو سننے کا شرف حاصل ہوا ان میں ایک تنویر پھول صاحب بھی ہیں، مشاعرے کے دوران وہ آخر تک موجود ہوتے ہیں، ہمیشہ نرم لہجے اور دھیمے انداز میں گفتگو فرماتے ہیں ان کی اس شخصیت کی چھاپ ان کے اشعار پر بھی ہے

اپنی اس مختصر گفتگو میں، میں ان کے صرف ایک شعر کے حوالے سے بات کروں گا، جو گزشتہ روز امروہہ فاؤنڈیشن کی طرف سے "یادِ اقبال" کے نام سے منعقد کیے گئے مشاعرے میں سننے کا موقع ملا، ایک پھول کی خوشبو پھول کی فطری جبلت کا ظہور ہے، وہ خوشبو کسی فرقے، کسی علاقے، کسی نسل، کسی وطن، کسی ذات یا کسی مذہب کے امتیاز سے مبرا ہوتی ہے، ایک پھول یا پھولستان کی مہک سے ہر چھوٹا بڑا، ہر خاص و عام، گورا کالا یعنی ہر کوئی فیض یاب ہوتا ہے، پھول کی یہ عدمِ امتیازیت اور آفاقیت تنویر پھول صاحب کے اشعار میں نظر آتی ہے، ان کا وہ شعر ملاحظہ فرمائیں جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے

"اُس نے پیدا کر دیا ہر شخص کو چاہا جہاں
اپنی مرضی سے بھلا کس نے چنا اپنا وطن"

دیکھا جائے تو ان کے اس شعر میں انسانیت کی وحدت کا پیغام ہے، آفاقیت ہے، محبت ہے، اتحاد کا پیغام ہے، یہی ہے وہ جھلک جس میں ہمیں تنویر پھول صاحب نظر آ رہے ہیں، بنیادی طور پہ اس شعر کا یہ پیغام ہے کہ وطن کے چناؤ پہ انسان کا اختیار نہیں ہوتا لہذا وطنیت کی بنیاد پہ کسی قسم کی عصبیت نہیں ہونی چاہیے، میں تو اس شعر کو اس انداز میں سمجھا ہوں،

میں ان کے اس مصرعے کیساتھ اپنی گفتگو کا اختتام کروں گا

"رنگ و نسل و قوم یہ سب ہیں بتانِ آزری"
اعجازؔ کشمیری



قطعہ

شہرت کو میری اور بڑھانے کا شکریہ
میرے سخن میں پر بھی لگانے کا شکریہ
اسلم تو دل سے آپ کا ممنون ہے بہت
مہمان ذی وقار بنانے کا شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم جناب تنویر پھول صاحب کے نام چند رباعیات


اشعار کی تابندہ سی تصویر بھی ہے
ہر گام پہ آمادۂ تحریر بھی ہے
اک پھول کی خوشبو نے یہ دھیرے سے کہا
گلشن میں سخن کے کوئی تنویر بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو نظم و غزل ہے تو سخن ہے سارا
فنکار ہے تو اور تو فن ہے سارا
بے شک مری اردوے معلیٰ کا ابھی
تو پھول ہے خوشبو ہے چمن ہے سارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر میں ہے علم کی خوشبو موجود
تقریر میں ہے علم کی خوشبو موجود
ہر لفظ یہ کہتا ہے بہ آواز بلند
تنویر میں ہے علم کی خوشبو موجود


ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم
بھاگلپور، انڈیا



ممتاز شاعر و نثر نگار تنویر پھول

ادب کا سفینہ ہیں تنویر پھول
سخن کا قرینہ ہیں تنویر پھول

عجب سادگی ہے عجب حسنِ ظن
حیا کا نگینہ ہیں تنویر پھول

وہ نثرِ مسجع کے ہیں تاجدار
ادب کا خزینہ ہیں تنویر پھول

کمندِ صدائے عروجِ سخن
بلندی کا زینہ ہیں تنویر پھول

اے منظر. ! ہے توبھی ادب کا نقیب
غزل کا سفینہ ہیں تنویر پھول

منظرانصاری


بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں برٹش پاکستانی ویمن سوسایٹی اور دبستان, علم وادب برطانیہ کے منتظمین و اراکین کو خراج,تحسین پیش کرتا ہوں جن کی مساعی کے طفیل جناب تنویر پھول کے اعزاز میں اعتراف,کمال,فن کی تقریب منعقد ہویی. مجھے اور مجھ جیسے کیی سامعین و ناظرین کو ان کی شخصیت اور فن کو جاننے کا شرف نصیب ہوا. میں جناب تنویر پھول صاحب کا بطور,خاص ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی تخلیقات سے ہمارے دل و دماغ کو منور اور اپنی فکر کی خوش بو سے ہماری سوچوں اور سانسوں کو معطر کرنے کا سامان مہیا کیا.
کہتے ہیں کہ ,,چہرہ انسان کی شخصیت کا آینہ ہوتا ہے.,, لیکن شاعر اور ادیب کی شخصیت کا آینہ اس کی تخلیقات ہوتی ہیں. اگرچہ اس کے افکار اور فن کا صحیح ادراک تو اس کا پورا کلام پڑھ کر ہی ہو سکتا ہے تاہم اس کے طبعی رحجان اور مرکزی نکتہ, نظر کا اندازہ اس کی کتابوں کے ناموں سے ہی ہو جاتا ہے. ہم ایک سرسری نگاہ ان کی تخلیقات کے سرناموں پر ہی ڈال لیتے ہیں

گلشن,سخن, زبور,سخن, خوش بو بھینی بھینی, دھواں دھواں چہرے , رشک,باغ,ارم... چڑیا, تتلی, پھول.. نغمات,پاکستان ,...
انوار حرا,..
تنویر,حرا

گویا خدا و رسول سے عشق اور وطن و نونہالان, وطن کے ساتھ ساتھ انسان سے محبت ان کے ضمیر و خمیر میں ودیعت کر دی گیی ہے جس کا اظہار وہ حمد, نعت, سلام, غزل اور مختلف اصناف, سخن میں کرتے رہتے ہیں.
یہ محفل چوں کہ ان کو خراج,تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی گیی ہے اس لیے میں وقت کی کمی کے باعث چند پہلووں کی. جانب اشارہ کرکے اجازت چاہوں گا.
انہوں نے ,, حرا ,, کو اپنی تخلیق اور زندگی کا بنیادی استعارہ قرار دیا ہے. انہیں طور پر جانے سے یہ خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں دیدار , محبوب کی خواہش کا اظہار کریں تو کویی جواب نہ ملے یا غیب سے آواز آے
,, لن ترانی ,,
تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا.
وہ ایسی جگہ جانا چاہتا ہے جہاں سننے کو
,, اقرا باسم ربک,, کی صداے دل ربا یو.
وہ تو ایسے مقام پر بھی جانے کا آرزو مند نہیں ہے جہاں
,, رب ا لشرح لی صدری ,, کی دعا مانگنا پڑے. وہ مبداے فیض سے وادی,لاہوت میں ملاقات کا متمنی ہے جہاں ہر پل
,, الم نشرح لک صدرک ,,
کا نغمہ, لاہوتی گونج رہا ہو.
اس نے اپنی کتابوں کے نام بلا وجہ,, انوار, حرا ,, اور ,, تنویر, حرا,, نہیں رکھے. ان کا مقام, عرفان و عقیدت سمجھنے کے لیے نعت اور سلام کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
جو عالموں کا رب ہے یہ اس کا پیام ہے
لازم مرے نبی پر درود و سلام ہے

عشق, نبی کے سوز میں جلتا رہا جو دل
سن لو کہ اس پہ آتش, دوزخ حرام ہے

اللہ ! آرزو ہے کہ میدان ,حشر میں
کہہ دیں وہ کاش ! پھول ہمارا غلام ہے

سلام کے چند اشعار ملاحظہ ہوں.

نبی کا سبط, زہرا کا پسر خنجر کے نیچے ہے.
علی کا لاڈلا لخت, جگر خنجر کے نیچے ہے

فرشتے دم بخود ہیں کربلا کا دیکھ کر منظر
زمیں پر عظمت, نوع, بشر خنجر کے نیچے ہے

اٹھایا سر نہ سجدے سے,ہے سجدہ حشر تک قایم
جبیں سجدے میں ہے اے پھول! سر خنجر کے نیچے ہے

جہاں تک غزل کا تعلق ہے اس میں بھی انہوں نے عمدہ اشعار کہے ہیں. وہ اکثر صنعت تضاد کے استعمال سے شعر کا حسن دو بالا کر دیتے ہیں . چند اشعار ملاحظہ ہوں

نہ جانے یہ مسرت ہے کہ غم ہے
لبوں پر ہے تبسم آنکھ نم ہے

طلسم, سامری میں ہے کلیمی
یہ کیسا ظلم ہے کیسا ستم ہے

جبیں تیری جھکی کعبے کی جانب
مگر دل تو ترا
بیت الصنم ہے

وہ اکثر اوقات جب بھی پہلے مصرع میں کویی مقدمہ یا دعوی پیش کرتے ہیں تو دوسرے مصرع میں جواب دعوی اور دلیل لے آتے ہیں جس سے فکروخیال میں پختگی پیدا ہو جاتی ہے. چند اشعار دیکھیے.
نگاہ آفاق کی جانب ہے جس کی
صبا رفتار اس کا ہر قدم ہے

بہت سرعت میں آہو زندگی کا
تعاقب میں جو صیاد, عدم ہے

زبان, پھول سے یہ گل فشانی
نظر کے سامنے کیا جام, جم ہے

کیسے آے بہار ہستی میں
اب یہاں جرات,نمو ہی نہیں
راز, ہستی بھلا وہ کیا سمجھے
جس کو منزل کی جستجو ہی نہیں
اپنی ہستی کا راز پا نہ سکا
ابن آدم ہے کس لیے نازاں

تنویر پھول کی شاعری قنوطیت کی نہیں رجاییت کی شاعری ہے. ان اشعار میں ہمت و حوصلہ دیکھیے.
نقش الفت کا ہم ابھاریں گے
زلف, گیتی کا خم سنواریں گے
کھود کر جوے شیر لانی ہے
ہم نہ ہمت جہاں میں ہاریں گے
لذت,صبر سے ہوے واقف
سر پہ تیشہ کبھی نہ ماریں گے

تنویر پھول کی شخصیت کی بہت اہم جہت جسے میری طرح کے اکثر شعرا نے بظر انداز کر رکھا ہے. وہ بچوں کا ادب ہے. کہتے تو ہم ہیں کہ بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں مگر اس پر یقین نہیں رکھتے. انہی اقوام نے ہمیشہ ترقی کی ہے جو بچوں کے مستقبل سنوارنے میں ہمہ وقت دل جمعی سے مصروف رہتی ہیں . ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جناب تنویر پھول کی طرح بچوں کے ادب کی طرف خصوصی توجہ کریں . بچوں کے بہتر مستقبل میں ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل پنہاں ہے

حسنین بخاری. لاہور. پاکستان


https://youtu.be/UakEf_RMktI


محترم شارق رشید صاحب نے تنویر پھول صاحب کے حوالے
سے جو باتیں کہیں ہیں ان سے
خوشد ل بھی متفق ہے ۔بلا شبہ
تنویر پھول اپنے نام کی مناسبت سے اسم ِ با مسمیٰ ہیں ۔مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ " شاعری" کراچی مدیر سہیل غازی پوری میں ان کی تخلیقات جو شاعری کے بیشتر اصناف پر مشتمل ہیں دیکھتا رہا پڑھتا رہا۔شاعری کے 54 شمارے میرے پاس آج بھی محفوظ ہیں ۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ 48 شماروں میں ہم دونوں کی تخلیق کو سہیل صاحب نے جگہ دی ۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک زمانے کے بعد معلوم ہوا کہ میرے وہ ہم زلف ہیں ۔پروفیسر شکیل الرحمن ماہر جمالیات تنویر صاحب کی والدہ محترمہ کے ماموجان اور میری خوشدامن کے بھی مامو جان تھے ۔موصوف کی کئی اہم کتاب جن میں " عہدِ
مغلیہ کی جمالیات جو 1970 عیسوی کے آس پاس شائع,ہوئی تھی جس کی قیمت اس وقت,1000 روپے تھی میرے حصے میں آئی ۔۔
بہر کیف ! تنویر,پھول عہد حاضر کے ایسے قلکار ہیں جن کی خوشبو کو ہم سب انشاءاللہ محسوس کریں گے ۔ان سے اکثر گفتگو کا شَرَف حاصل ہوتا ہے ۔قطعۂ تاریخ گوئی کے فن میں مشاق ہیں ۔اسلامی تاریخ پر ان کا مطالعہ وسیع ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کو صحت تندرستی کے ساتھ بدیر قائم رکھے تاکہ مجھے ان سے استفادے کا موقع ملتا رہے۔
ڈاکٹر فرحت حسین خوشدل انڈیا ۔




رباعیات بنام جناب تنویر پھول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ مشک سے کچھ عنبرِ اردو سے بھری
ہر ایک غزل اسکی ہے خوشبو سے بھری
کر دیتی ہے مسحور ہر اک قاری کو
تنویر کی تحریر ہے جادو سے بھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر سمت منور بھی ہے تنویر کا پھول
لاریب گلِ تر بھی ہے تنویر کا پھول
موجود ہیں اوصاف ہزاروں اس میں
خوشبو سے معطر بھی ہے تنویر کا پھول


عابدہ شیخ
مانچیسٹر،یو کے
http://www.abitabout.com/Tanwir+Phool
http://duckduckgo.com/Tanwir_Phool
http://www.allaboutreligions.blogspot.com
Post Reply