جدہ (سعودی عرب) میں اسی ماہ کی 6 اور 7 تاریخ کو ایک کانفرنس بنام "عالمی اردو کانفرنس" منعقد ہوئی تھی۔
حیدرآباد کے معروف اردو اخبار کے سعودی عرب کے نمائیندے محترم جناب "غوث ارسلان" نے اس کانفرنس کا تجزیہ کیا ہے جو مذکورہ اخبار کے اتوار ایڈیشن 15۔جون۔2008 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
ملاحظہ فرمائیں :
گزشتہ چند برسوں سے عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کا فیشن چل پڑا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی نے بھی اسی فیشن زدگی کا شکار ہو کر 6 اور 7 جون کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتتاحی اجلاس اور پروفیسر نارنگ کی رنگین معروضات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی کے عملے کی ہوا میں باتیں اور زبانی جمع خرچ ۔۔۔۔۔۔۔
ضیاءالدین شکیب اور تقی عابدی کے مقالے ۔۔۔ ان پیج سافٹ وئر کے مخصوص دائرے میں قید اور اردو یونیکوڈ کی اہمیت سے ناواقفیت ۔۔۔۔
عالمی اردو کانفرنس نہیں بلکہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کا روڈ شو ۔۔۔۔۔۔۔
Jeddah Aalmi URDU conference - Tanqeed/Tajzia
- Hyderabadi
- -
- Posts: 19
- Joined: Sat Apr 14, 2007 6:06 am
- Hyderabadi
- -
- Posts: 19
- Joined: Sat Apr 14, 2007 6:06 am
Re: Jeddah Aalmi URDU conference - Tanqeed/Tajzia
السلام علیکم محترمین !
درج بالا تجزیہ / تنقید پر ہمارے بعض محترم احباب کو اعتراض ہوا ہے جس کے سبب راقم الحروف کو ذیل کا جواب تحریر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
آزادیء اظہارِ خیال کے ناتے کچھ خیالات راقم الحروف کے بھی ملاحظہ کر لئے جائیں تو عین نوازش ہوگی۔ پیشگی معذرت چاہوں گا اگر کچھ سطریں تلخ محسوس ہوں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ کوئی "تنقید" مطلق منفی یا مثبت نہیں ہوتی۔ ہمارا نقطۂ نظر یا ہمارے سوچنے کا ڈھنگ اس کو مثبت یا منفی کا احساس عطا کرتا ہے۔
کسی عمل کی صرف تعریف و تحسین ہی ہمارا مقصد ہو تو پھر "احتساب" جیسے لفظ کو لغت سے خارج کر دینا پڑے گا۔ ظاہر ہے ، احتساب تو تب تک نہیں ہو سکتا جب تک کسی عمل یا اعمال کے منفی نکات کو سامنے نہ لایا جائے۔ جو گروہ/جماعتیں احتساب کی روشنی سے عاری ہو جاتی ہیں ، ان کا حال کیا ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
وقت، پیسہ اور محنت اگر غیرضروری یا بےاہمیت کاموں میں صرف ہو تو اس کا حال بھی اس کرکٹ میچ جیسا کہلائے گا جس کے متعلق ایک مغربی دانشور کہتا ہے کہ کھیلتے تو گیارہ کھلاڑی مگر اسے دیکھتے گیارہ لاکھ احمق ہیں !
اردو کے نام پر اس قسم کی کانفرنسوں یا سمینارز یا اجتماعات کی سمجھ راقم الحروف کو کبھی نہیں آئی۔ معذرت! یہ راقم کا ذاتی خیال بھی ہو سکتا ہے جس سے فردِ مخالف کو اختلاف کا یقیناً حق حاصل ہے۔
اگر کوئی محترم سمجھتے ہیں کہ ان جیسے اجتماعات کا واقعتاً کوئی مثبت پہلو ہے تو بلا کسی تحفظ کے ، اسے واضح کیا جانا دورِ حاضر کا ناگزیر امر ہے۔
صرف بات کو پہنچا دینا اصل مقصد ہے تو یہ کام میڈیا (ٹی۔وی ، انٹرنیٹ ، اخبارات وغیرہ) بخوبی سرانجام دے رہا ہے۔ اس کے لئے دانشورانِ زبان و قوم و ملت کو کسی ایک جگہ جمع کرنا کوئی انتہائی اشد اور ضروری امر نہیں ہے۔ الا یہ کہ زبان و نسل کے ان ہمدرد حضرات کی "ہمدردی" کا بھی کچھ سامان پیدا کرنے کی گنجائش نکال لی جائے !
سالوں قبل شارجہ میں جب پہلی بار کرکٹ کا مقابلہ شروع کیا گیا تھا تو بڑی دھوم مچی تھی کہ متحدہ عرب امارات میں پہلی بار ایک شاندار مقابلے کا انعقاد کرکٹ کے اہل ذوق مداح و شائقین کے لئے بےحد مسرتوں کا باعث بنا۔
لیکن ۔۔۔ زبان و ادب کی خدمت کسی کھیل کی طرح کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے کہ چند گھنٹے یا چند مخصوص ایام میں تقریب یا تقریبات کے کامیاب انعقاد ہی کو اصل نصب العین سمجھ لیا جائے۔ اس طرح تو کسی غیر کو کسی قسم کی سازش کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ہم خود ہی اردو زبان و ادب کے وہ شہسوار کہلائیں گے جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے :
خود ہی قاتل ، خود ہی مخبر، خود ہی منصف ٹھہرے
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ کھیلوں کی طرح زبان و ادب کی خدمت کا بھی کمرشلائز "اغوا" کر لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اتنی ہزار تعداد میں سامعین کی شرکت ہوئی اتنے لاکھ ناظرین تک "بات کو پہنچایا گیا" ۔۔۔۔ کیا یہ زبان و ادب کا استحصال نہیں ہے؟ کیا ہمیں بتایا جا سکتا ہے کہ اس کے پسِ پشت کون سی ادبی مافیا کارفرما ہے؟
بےشک اردو زبان و ادب کی ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں مشاعروں ، ادبی اجلاسوں اور شعر و ادب کی مخصوص نشستوں نے اردو داں خواتین و حضرات کے ادبی و شعری ذوق و شوق کو نکھارا ، سنوارا اور اس کی آبیاری کی ہے۔ اس کا کسی کو انکار نہیں ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ وقت وقت کے فرق کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ کیا ہمیں یہ بتانے یا جتانے کی ضرورت ہے کہ ۔۔۔
اُس وقت کے اور آج کے اردوداں قاری/سامع کی تعداد میں کتنا فرق آیا ہے؟
ان کی ذہنی استعداد کے معیار میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے؟
اردو کو اس کے اصل رسم الخط کے ذریعے پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں کتنی کمی آئی ہے؟
انفارمیشن تکنولوجی کے اس تیز رفتار دور میں بھی جو لوگ بوسیدہ روایتی اجلاسوں سمیناروں اور کانفرنسوں کی تائید میں رطب اللسان ہیں ان کو اب ذرا ہوش کی دوا کر لینی چاہئے کہ مشہور مصرعہ ہے :
دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا !!
آج ٹی وی کی طرح ، کمپیوٹر تقریباً ہر گھر میں موجود ہے۔ آج کی نئی نسل جو عالمی سیاست سے لے کر موبائل ٹکنالوجی تک آرام سے بلاجھجھک بات کرتی اور اپنی بات کی بآسانی تفہیم و تشریح کرتی ہے ، اس نئی نسل تک اردو زبان و ادب اور اس کی تہذیب کو منتقل کرنے میں ہمارا اور آپ کا کیا حصہ رہا ہے؟
اس سوال کا سادہ سا جواب اردو ویب سائیٹس ، اردو یونیکوڈ تحریر ، ان پیج سے یونیکوڈ تبدیلی کا سافٹ وئر یا اردو سافٹ وئرز نہیں ہے !
بلکہ یہ ہے کہ اردو زبان و ادب ، تہذیب ، آثار ، زخیرۂ مواد کو نئی نسل تک بہ سہولت پہنچانے اور مقبول و پرکشش باور کرانے میں روایتی کانفرنسوں اور سمیناروں کے دلدادگان نے کون سی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے؟؟
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جو قومیں ارتقاء میں یقین نہیں رکھتیں ، ان کا کیا حشر نشر ہوتا ہے؟ آج جو چند عمررسیدہ چہرے ہم کو ان کانفرنسوں اور سمیناروں میں بہ پابندی نظر آتے ہیں ان کا سلسلہ مزید کتنے برسوں تک برقرار رہ پائے گا؟ کانفرنسوں / سمیناروں کی دم توڑتی روایتی تہذیب میں نیا خون کب انجکٹ کیا جائے گا؟ نئے خون کو اس جانب کیسے متوجہ کیا جائے گا اور کیسے ترغیب دلائی جائے گی؟؟
ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ہو تو لامحالہ ہم کو ماضی کی حسین یادوں سے چھٹکارہ پا کر دورِ حاضر کی انفارمیشن تکنولوجی کی دنیا میں اپنا وہ کردار ادا کرنا لازمی ہے جو وقت کا شدید تقاضا بھی ہے۔
جو محنت ، جو وقت اور جو پیسہ روایتی تقریبات میں "ضائع" کیا جا رہا ہے ، اردو زبان و ادب کی خدمت کے لئے اس کا درست استعمال ہر باضمیر اردو داں کا فرض ہے ورنہ ۔۔۔۔
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں !!
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ۔۔۔۔۔
اردو کے تعلق سے حساس جن باضمیر افراد کی رسائی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک ہے ان کو "اردو یونیکوڈ" کا صرف زبانی علم ہے اور کسی قسم کے عملی تجربہ سے وہ قاصر ہیں۔ اس کی مثال آج بھی "رومن اردو" یا "تصویری اردو" کے بیشمار ویب سائیٹس یا ڈسکشن بورڈز یا بلاگز کے ذریعے ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
پھر بھی غنیمت ہے کہ نئی نسل کے چند سرپھرے باحوصلہ نوجوانوں کے ذریعے انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو یونیکوڈ تحریر کا موثر استعمال شروع کیا جا چکا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے فروغ نے اپنی منفرد پہچان بنانی شروع کر دی ہے۔
پی۔ایچ۔پی۔بی۔بی ، وی۔بلیٹن یا سمپل فورمز کے آج کتنے ہی ڈسکشن بورڈز آپ کو جابجا اردو میں دکھائی دیں گے۔ ورڈ پریس اور بلاگ اسپاٹ کو بھی اردو میں مقمیا لیا گیا ہے اور ان دونوں سائیٹس پر ہمیں اردو کے بلاگز دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔
مگر ۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات ہندوستان کے تعلق سے ہے۔
راقم کے علم کی حد تک سارے ہندوستان سے کوئی ایک بھی ایسا فورم موجود نہیں ہے جو خالصتاً اردو یونیکوڈ رسم الخط میں موجود ہو۔ اسی طرح اردو یونیکوڈ میں بھی ہندوستانی اردو دانوں کے انفرادی بلاگز اکا دکا ہی نظر آئیں گے جن میں سے ایک بلاگ خود راقم الحروف کا ہے۔
یقین جانئے کہ ۔۔۔۔۔
اپنے کمپیوٹر کو اردو پڑھنے لکھنے کے قابل بنانا ، خود اردو یونیکوڈ میں لکھنا سیکھنا ، ٹائیپنگ / کمپوزنگ میں مہارت حاصل کرنا ، اردو یونیکوڈ بلاگز یا فورمز تخلیق کرنا ۔۔۔ کوئی زیادہ محنت طلب بات نہیں ہے۔ صرف چند دنوں کی سنجیدہ محنت سے ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ خود کا اور اردو ادب کا قابل قدر سرمایا نیٹ پر اردو تحریر میں مہیا کر سکیں۔ یہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جس کی قدر نئی نسل یقیناً کرے گی اور اپنے اسلاف کی احسان مند بھی ہوگی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ۔۔۔
اردو زبان و ادب کی خدمت کے نام پر جو وقت ، محنت اور مالی وسائل روایتی تقریبات میں جھونکے جا رہے ہیں ان کے صحیح استعمال کی جانب توجہ کی جائے۔ ایسے اردوداں تکنیکی افراد کو ہائر کیا جائے جو اس میدان کے ماہر ہوں اور بلا کسی مالی منفعت کے اس مشن کی تکمیل کی خاطر اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر دلچسپی رکھنے والے دیگر متعلقین کو تیار کریں۔
انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کی پبلشنگ سے متعلق متذکرہ مشن کا ایک مختصر سا خاکہ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
A۔ ربطِ عامہ کی ٹیم :
1۔ ایک ٹیم کی تشکیل جو ہندوستانی ادیبوں ، شاعروں ، دانشوران ، نقاد وغیرہ سے بذریعے ای۔میل ربط میں رہے اور ان کے شخصی کوائف اور ا ن کی معروف ، مقبول اور تازہ تخلیقات کو حاصل کرے۔ اس ٹیم کے افراد کو مختلف ریاستوں کے حوالے سے بانٹا بھی جا سکتا ہے۔
2۔ اسی طرح کی مختلف ٹیمیں جو بیرون ملک مقیم ہندوستانی اردو داں قلمکاروں سے ربط قائم کریں مثلاً مشرق وسطیٰ کے لئے ایک ٹیم ، امریکہ کناڈا کے لئے ایک ، یوروپ کے لئے علیحدہ وغیرہ وغیرہ۔
B۔ اردو کے کلاسیکی مواد کا زخیرہ :
1۔ مقبول عام اور سنجیدہ ادب کی کلاسیکی کتب ، رسائل ، مضامین وغیرہ کو جمع کرنے والی ایک ٹیم بنائی جائے
2۔ ہر ہندوستانی ریاست کی اردو اکیڈمی سے ربط کر کے اہم کتابوں کی فہرست اور ادیبوں ، شاعروں اور مصنفین کی ڈائرکٹری طلب کی جائے۔
C۔ اردو زبان و ادب کی تعلیم سے متعلق مواد :
1۔ ہندوستان کے تمام اردو مدارس کے نام پتے اور ان کے کورسز کی تفصیلات حاصل کی جائیں اور ممکن ہو تو ہر جماعت میں پڑھائی جانے والی کتابوں کی مکمل تفصیلات بھی۔
2۔ ہندوستان کی تمام جامعات میں جہاں جہاں بھی اردو کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع حاصل ہیں ان تمام شعبہ جات ، اساتذہ ، کورسز اور کتابوں کی تفصیل مع یونیورسٹی کے نام پتے۔
D۔ اردو اخبارات و رسائل کی ڈائرکٹری :
1۔ ہندوستان کی ہر ریاست / شہر سے شائع ہونے والے ایک ایک اخبار ، رسالے ، جریدے وغیرہ کی تفصیلات اکٹھا کی جائیں۔
2۔ ان تمام اردو پریس کے نام و پتے حاصل کئے جائیں جہاں سے اردو اخبارات و رسائل کی طباعت و اشاعت عمل میں آتی ہو
E۔ ڈاٹا بیس کی اردو یونیکوڈ میں انٹرنیٹ پر اشاعت :
اوپر جو کام دئے گئے ہیں ، ان سب کو اردو یونیکوڈ میں تحریر کرنے کے لئے کمپوزرز کی مختلف ٹیمیں بنانی ہوں گی۔ پھر اس ڈاٹا کو اُن مختلف فورمز یا ویب سائیٹس یا بلاگز پر شائع کیا جائے گا جن کو اسی مشن کے ذمہ داران تخلیق کریں گے۔
یہ سارا کام گو کہ پہلی نظر میں شائد مشکل نظر آئے لیکن ۔۔۔۔
یاد رکھا جانا چاہئے کہ دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہے !!
آج انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی میں ایسے کئی اردو یونیکوڈ فورمز موجود ہیں جہاں کے قارئین رضاکارانہ طور پر اردو کی کلاسیکی کتب ، اسلامی کتابیں ، ابن صفی کے ناولوں کو اردو یونیکوڈ میں کمپوز کر رہے ہیں۔
اگر کمپیوٹر جنریشن کی یہ نئی نسل اردو کی ترویج میں یوں صدق دلی سے کام کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟ آخر ہم کب تک روایتی تقریبات سے جی بہلاتے رہیں گے اور ان کی مدح و تحسین میں رومن اردو یا تصویری اردو کے ذریعے صفحات سیاہ کرتے رہیں گے؟
اس موقع پر اس مشہور شعر کو یاد کر لیا جانا چاہئے :
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اردو زبان و ادب سے زبانی و عملی ہمدردی رکھنے والے غیر مقیم ہندوستانی دانشورانِ شعر و ادب اگر اس ضمن میں دلچسپی رکھتے ہوں تو راقم الحروف اس موضوع کو مزید آگے بڑھانے کے لئے تیار ہے۔
اس تحریر کی ایم۔ایس۔ورڈ فائل بھی اٹیچ کی جا رہی ہے تاکہ اسے ای۔میل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچا کر ان کے بھی رائے مشوروں سے استفادہ حاصل کیا جا سکے۔
والسلام علیکم
- حیدرآبادی
درج بالا تجزیہ / تنقید پر ہمارے بعض محترم احباب کو اعتراض ہوا ہے جس کے سبب راقم الحروف کو ذیل کا جواب تحریر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
آزادیء اظہارِ خیال کے ناتے کچھ خیالات راقم الحروف کے بھی ملاحظہ کر لئے جائیں تو عین نوازش ہوگی۔ پیشگی معذرت چاہوں گا اگر کچھ سطریں تلخ محسوس ہوں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ کوئی "تنقید" مطلق منفی یا مثبت نہیں ہوتی۔ ہمارا نقطۂ نظر یا ہمارے سوچنے کا ڈھنگ اس کو مثبت یا منفی کا احساس عطا کرتا ہے۔
کسی عمل کی صرف تعریف و تحسین ہی ہمارا مقصد ہو تو پھر "احتساب" جیسے لفظ کو لغت سے خارج کر دینا پڑے گا۔ ظاہر ہے ، احتساب تو تب تک نہیں ہو سکتا جب تک کسی عمل یا اعمال کے منفی نکات کو سامنے نہ لایا جائے۔ جو گروہ/جماعتیں احتساب کی روشنی سے عاری ہو جاتی ہیں ، ان کا حال کیا ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
وقت، پیسہ اور محنت اگر غیرضروری یا بےاہمیت کاموں میں صرف ہو تو اس کا حال بھی اس کرکٹ میچ جیسا کہلائے گا جس کے متعلق ایک مغربی دانشور کہتا ہے کہ کھیلتے تو گیارہ کھلاڑی مگر اسے دیکھتے گیارہ لاکھ احمق ہیں !
اردو کے نام پر اس قسم کی کانفرنسوں یا سمینارز یا اجتماعات کی سمجھ راقم الحروف کو کبھی نہیں آئی۔ معذرت! یہ راقم کا ذاتی خیال بھی ہو سکتا ہے جس سے فردِ مخالف کو اختلاف کا یقیناً حق حاصل ہے۔
اگر کوئی محترم سمجھتے ہیں کہ ان جیسے اجتماعات کا واقعتاً کوئی مثبت پہلو ہے تو بلا کسی تحفظ کے ، اسے واضح کیا جانا دورِ حاضر کا ناگزیر امر ہے۔
صرف بات کو پہنچا دینا اصل مقصد ہے تو یہ کام میڈیا (ٹی۔وی ، انٹرنیٹ ، اخبارات وغیرہ) بخوبی سرانجام دے رہا ہے۔ اس کے لئے دانشورانِ زبان و قوم و ملت کو کسی ایک جگہ جمع کرنا کوئی انتہائی اشد اور ضروری امر نہیں ہے۔ الا یہ کہ زبان و نسل کے ان ہمدرد حضرات کی "ہمدردی" کا بھی کچھ سامان پیدا کرنے کی گنجائش نکال لی جائے !
سالوں قبل شارجہ میں جب پہلی بار کرکٹ کا مقابلہ شروع کیا گیا تھا تو بڑی دھوم مچی تھی کہ متحدہ عرب امارات میں پہلی بار ایک شاندار مقابلے کا انعقاد کرکٹ کے اہل ذوق مداح و شائقین کے لئے بےحد مسرتوں کا باعث بنا۔
لیکن ۔۔۔ زبان و ادب کی خدمت کسی کھیل کی طرح کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے کہ چند گھنٹے یا چند مخصوص ایام میں تقریب یا تقریبات کے کامیاب انعقاد ہی کو اصل نصب العین سمجھ لیا جائے۔ اس طرح تو کسی غیر کو کسی قسم کی سازش کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ہم خود ہی اردو زبان و ادب کے وہ شہسوار کہلائیں گے جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے :
خود ہی قاتل ، خود ہی مخبر، خود ہی منصف ٹھہرے
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ کھیلوں کی طرح زبان و ادب کی خدمت کا بھی کمرشلائز "اغوا" کر لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اتنی ہزار تعداد میں سامعین کی شرکت ہوئی اتنے لاکھ ناظرین تک "بات کو پہنچایا گیا" ۔۔۔۔ کیا یہ زبان و ادب کا استحصال نہیں ہے؟ کیا ہمیں بتایا جا سکتا ہے کہ اس کے پسِ پشت کون سی ادبی مافیا کارفرما ہے؟
بےشک اردو زبان و ادب کی ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں مشاعروں ، ادبی اجلاسوں اور شعر و ادب کی مخصوص نشستوں نے اردو داں خواتین و حضرات کے ادبی و شعری ذوق و شوق کو نکھارا ، سنوارا اور اس کی آبیاری کی ہے۔ اس کا کسی کو انکار نہیں ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ وقت وقت کے فرق کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ کیا ہمیں یہ بتانے یا جتانے کی ضرورت ہے کہ ۔۔۔
اُس وقت کے اور آج کے اردوداں قاری/سامع کی تعداد میں کتنا فرق آیا ہے؟
ان کی ذہنی استعداد کے معیار میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے؟
اردو کو اس کے اصل رسم الخط کے ذریعے پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں کتنی کمی آئی ہے؟
انفارمیشن تکنولوجی کے اس تیز رفتار دور میں بھی جو لوگ بوسیدہ روایتی اجلاسوں سمیناروں اور کانفرنسوں کی تائید میں رطب اللسان ہیں ان کو اب ذرا ہوش کی دوا کر لینی چاہئے کہ مشہور مصرعہ ہے :
دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا !!
آج ٹی وی کی طرح ، کمپیوٹر تقریباً ہر گھر میں موجود ہے۔ آج کی نئی نسل جو عالمی سیاست سے لے کر موبائل ٹکنالوجی تک آرام سے بلاجھجھک بات کرتی اور اپنی بات کی بآسانی تفہیم و تشریح کرتی ہے ، اس نئی نسل تک اردو زبان و ادب اور اس کی تہذیب کو منتقل کرنے میں ہمارا اور آپ کا کیا حصہ رہا ہے؟
اس سوال کا سادہ سا جواب اردو ویب سائیٹس ، اردو یونیکوڈ تحریر ، ان پیج سے یونیکوڈ تبدیلی کا سافٹ وئر یا اردو سافٹ وئرز نہیں ہے !
بلکہ یہ ہے کہ اردو زبان و ادب ، تہذیب ، آثار ، زخیرۂ مواد کو نئی نسل تک بہ سہولت پہنچانے اور مقبول و پرکشش باور کرانے میں روایتی کانفرنسوں اور سمیناروں کے دلدادگان نے کون سی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے؟؟
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جو قومیں ارتقاء میں یقین نہیں رکھتیں ، ان کا کیا حشر نشر ہوتا ہے؟ آج جو چند عمررسیدہ چہرے ہم کو ان کانفرنسوں اور سمیناروں میں بہ پابندی نظر آتے ہیں ان کا سلسلہ مزید کتنے برسوں تک برقرار رہ پائے گا؟ کانفرنسوں / سمیناروں کی دم توڑتی روایتی تہذیب میں نیا خون کب انجکٹ کیا جائے گا؟ نئے خون کو اس جانب کیسے متوجہ کیا جائے گا اور کیسے ترغیب دلائی جائے گی؟؟
ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ہو تو لامحالہ ہم کو ماضی کی حسین یادوں سے چھٹکارہ پا کر دورِ حاضر کی انفارمیشن تکنولوجی کی دنیا میں اپنا وہ کردار ادا کرنا لازمی ہے جو وقت کا شدید تقاضا بھی ہے۔
جو محنت ، جو وقت اور جو پیسہ روایتی تقریبات میں "ضائع" کیا جا رہا ہے ، اردو زبان و ادب کی خدمت کے لئے اس کا درست استعمال ہر باضمیر اردو داں کا فرض ہے ورنہ ۔۔۔۔
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں !!
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ۔۔۔۔۔
اردو کے تعلق سے حساس جن باضمیر افراد کی رسائی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک ہے ان کو "اردو یونیکوڈ" کا صرف زبانی علم ہے اور کسی قسم کے عملی تجربہ سے وہ قاصر ہیں۔ اس کی مثال آج بھی "رومن اردو" یا "تصویری اردو" کے بیشمار ویب سائیٹس یا ڈسکشن بورڈز یا بلاگز کے ذریعے ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
پھر بھی غنیمت ہے کہ نئی نسل کے چند سرپھرے باحوصلہ نوجوانوں کے ذریعے انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو یونیکوڈ تحریر کا موثر استعمال شروع کیا جا چکا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے فروغ نے اپنی منفرد پہچان بنانی شروع کر دی ہے۔
پی۔ایچ۔پی۔بی۔بی ، وی۔بلیٹن یا سمپل فورمز کے آج کتنے ہی ڈسکشن بورڈز آپ کو جابجا اردو میں دکھائی دیں گے۔ ورڈ پریس اور بلاگ اسپاٹ کو بھی اردو میں مقمیا لیا گیا ہے اور ان دونوں سائیٹس پر ہمیں اردو کے بلاگز دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔
مگر ۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات ہندوستان کے تعلق سے ہے۔
راقم کے علم کی حد تک سارے ہندوستان سے کوئی ایک بھی ایسا فورم موجود نہیں ہے جو خالصتاً اردو یونیکوڈ رسم الخط میں موجود ہو۔ اسی طرح اردو یونیکوڈ میں بھی ہندوستانی اردو دانوں کے انفرادی بلاگز اکا دکا ہی نظر آئیں گے جن میں سے ایک بلاگ خود راقم الحروف کا ہے۔
یقین جانئے کہ ۔۔۔۔۔
اپنے کمپیوٹر کو اردو پڑھنے لکھنے کے قابل بنانا ، خود اردو یونیکوڈ میں لکھنا سیکھنا ، ٹائیپنگ / کمپوزنگ میں مہارت حاصل کرنا ، اردو یونیکوڈ بلاگز یا فورمز تخلیق کرنا ۔۔۔ کوئی زیادہ محنت طلب بات نہیں ہے۔ صرف چند دنوں کی سنجیدہ محنت سے ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ خود کا اور اردو ادب کا قابل قدر سرمایا نیٹ پر اردو تحریر میں مہیا کر سکیں۔ یہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جس کی قدر نئی نسل یقیناً کرے گی اور اپنے اسلاف کی احسان مند بھی ہوگی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ۔۔۔
اردو زبان و ادب کی خدمت کے نام پر جو وقت ، محنت اور مالی وسائل روایتی تقریبات میں جھونکے جا رہے ہیں ان کے صحیح استعمال کی جانب توجہ کی جائے۔ ایسے اردوداں تکنیکی افراد کو ہائر کیا جائے جو اس میدان کے ماہر ہوں اور بلا کسی مالی منفعت کے اس مشن کی تکمیل کی خاطر اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر دلچسپی رکھنے والے دیگر متعلقین کو تیار کریں۔
انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کی پبلشنگ سے متعلق متذکرہ مشن کا ایک مختصر سا خاکہ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
A۔ ربطِ عامہ کی ٹیم :
1۔ ایک ٹیم کی تشکیل جو ہندوستانی ادیبوں ، شاعروں ، دانشوران ، نقاد وغیرہ سے بذریعے ای۔میل ربط میں رہے اور ان کے شخصی کوائف اور ا ن کی معروف ، مقبول اور تازہ تخلیقات کو حاصل کرے۔ اس ٹیم کے افراد کو مختلف ریاستوں کے حوالے سے بانٹا بھی جا سکتا ہے۔
2۔ اسی طرح کی مختلف ٹیمیں جو بیرون ملک مقیم ہندوستانی اردو داں قلمکاروں سے ربط قائم کریں مثلاً مشرق وسطیٰ کے لئے ایک ٹیم ، امریکہ کناڈا کے لئے ایک ، یوروپ کے لئے علیحدہ وغیرہ وغیرہ۔
B۔ اردو کے کلاسیکی مواد کا زخیرہ :
1۔ مقبول عام اور سنجیدہ ادب کی کلاسیکی کتب ، رسائل ، مضامین وغیرہ کو جمع کرنے والی ایک ٹیم بنائی جائے
2۔ ہر ہندوستانی ریاست کی اردو اکیڈمی سے ربط کر کے اہم کتابوں کی فہرست اور ادیبوں ، شاعروں اور مصنفین کی ڈائرکٹری طلب کی جائے۔
C۔ اردو زبان و ادب کی تعلیم سے متعلق مواد :
1۔ ہندوستان کے تمام اردو مدارس کے نام پتے اور ان کے کورسز کی تفصیلات حاصل کی جائیں اور ممکن ہو تو ہر جماعت میں پڑھائی جانے والی کتابوں کی مکمل تفصیلات بھی۔
2۔ ہندوستان کی تمام جامعات میں جہاں جہاں بھی اردو کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع حاصل ہیں ان تمام شعبہ جات ، اساتذہ ، کورسز اور کتابوں کی تفصیل مع یونیورسٹی کے نام پتے۔
D۔ اردو اخبارات و رسائل کی ڈائرکٹری :
1۔ ہندوستان کی ہر ریاست / شہر سے شائع ہونے والے ایک ایک اخبار ، رسالے ، جریدے وغیرہ کی تفصیلات اکٹھا کی جائیں۔
2۔ ان تمام اردو پریس کے نام و پتے حاصل کئے جائیں جہاں سے اردو اخبارات و رسائل کی طباعت و اشاعت عمل میں آتی ہو
E۔ ڈاٹا بیس کی اردو یونیکوڈ میں انٹرنیٹ پر اشاعت :
اوپر جو کام دئے گئے ہیں ، ان سب کو اردو یونیکوڈ میں تحریر کرنے کے لئے کمپوزرز کی مختلف ٹیمیں بنانی ہوں گی۔ پھر اس ڈاٹا کو اُن مختلف فورمز یا ویب سائیٹس یا بلاگز پر شائع کیا جائے گا جن کو اسی مشن کے ذمہ داران تخلیق کریں گے۔
یہ سارا کام گو کہ پہلی نظر میں شائد مشکل نظر آئے لیکن ۔۔۔۔
یاد رکھا جانا چاہئے کہ دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہے !!
آج انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی میں ایسے کئی اردو یونیکوڈ فورمز موجود ہیں جہاں کے قارئین رضاکارانہ طور پر اردو کی کلاسیکی کتب ، اسلامی کتابیں ، ابن صفی کے ناولوں کو اردو یونیکوڈ میں کمپوز کر رہے ہیں۔
اگر کمپیوٹر جنریشن کی یہ نئی نسل اردو کی ترویج میں یوں صدق دلی سے کام کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟ آخر ہم کب تک روایتی تقریبات سے جی بہلاتے رہیں گے اور ان کی مدح و تحسین میں رومن اردو یا تصویری اردو کے ذریعے صفحات سیاہ کرتے رہیں گے؟
اس موقع پر اس مشہور شعر کو یاد کر لیا جانا چاہئے :
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اردو زبان و ادب سے زبانی و عملی ہمدردی رکھنے والے غیر مقیم ہندوستانی دانشورانِ شعر و ادب اگر اس ضمن میں دلچسپی رکھتے ہوں تو راقم الحروف اس موضوع کو مزید آگے بڑھانے کے لئے تیار ہے۔
اس تحریر کی ایم۔ایس۔ورڈ فائل بھی اٹیچ کی جا رہی ہے تاکہ اسے ای۔میل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچا کر ان کے بھی رائے مشوروں سے استفادہ حاصل کیا جا سکے۔
والسلام علیکم
- حیدرآبادی
- Attachments
-
- unicode-mission.zip
- (16.81 KiB) Downloaded 64 times