مولانا عاقل حسامی : بلبل ہزار داستان کی موت
عبد المتین منیری ۔بھٹکل
ایڈیٹر اخباروافکارڈاٹ کام
ammuniri@gmail.com
حیدرآباد دکن سے یہ غمگین خبر موصول ہوئی ہے کہ ٓاج بروز جمعہ ۱۲ ؍ مارچ کی صبح مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب نے ۸۲ سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا ۔ پھر ظہر بعد انٹرنٹ پر حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد سے ہزاروں معتقدیں کے کاندھوں پر اٹھتے ہوئے جنازے کی تصویریں بھی نظر سے گذریں۔ جو اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اللہ کا ایک مقبول بندہ اس جہاں سے کوچ کرگیا ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولانا کو ہم نے پہلی بار ۱۹۷۰ء کے آس پاس مدراس میں دیکھا تھا، عمر کوئی چالیس کے آس پاس رہی ہوگی۔ڈاڑھی بالکل سیاہ تھی۔سفید شیروانی ، سرپر سفید عمامہ ، اس پر سفید غترہ یا رومال ، رنگ گورا ، ناک لمبی ، قد میانہ درازی مائل،چال ڈھال ایسی کہ دیکھنے والے کو اپنی طرف مائل کرکے دل میں اپنی محبت بٹھادے،اس وقت آج کا شہر چنئی جو کہ مدراس کہلاتا تھا یوں تو ریاست ٹامل ناڈو کا صدر مقام تھا ، لیکن اس میں اردو بولنے والوں کے چند علاقے بھی تھے ، مشہور عالم بنی مل Binnys کے پڑوس میں شولے، مونٹ روڈ کے قریب ٹریپلیکین روڈ اور پیریمیٹ ، چند اور علاقے اور بھی تھے،لیکن شولے کی مسجد اعظم جہاں ہمارے قاضی شہر بھٹکل مولانا ملا اقبال ندوی کے ایک عزیز امام تھے، اور ٹریپلیکین کی شاہی مسجد والاجاہی میں ماہ ربیع الاول اور محرم الحرام میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شہادت حسین رضی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے اردو کے واعظ اور خطیب دس بارہ دن ان ایام کی مناسبت سے تقریر یں کرنے آیا کرتے تھے، پیریمیٹ مسجد میں موسموں کی کوئی تخصیص نہیں تھی ، وہاں پر شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ کے ایک شاگرد رشید اور سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہم درس ایک پٹھان عالم دین امام و خطیب تھے، یہاں پر وقتا فوقتا حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد انظرشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ مختلف اکابر کے وقتا فوقتا بیانات ہوتے رہتے تھے۔
شولہ کی مسجد اعظم ہمارے جمالیہ عربک کالج سے بہ نسبت قریب پڑتی تھی اور یہاں ہرسال پابند ی سے مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب جنہیں ہم آج مرحوم مغفور کہنے پر مجبور ہیں، ربیع الاول اور محرم کی مناسبت سے سالہا سال تک میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بیانات دینے کے لئے آیا کرتے تھے۔
ہمیں اپنی مختصر زندگی میں بہت سارے خطیبوں اور واعظوں کو سننے اور کئی ایک کے بیانات اور تقریروں کا انتظام کرنے کے مواقع نصیب ہوئے ، لیکن وعظ وخطابت کا جو انداز ہمیں مولانا حمید الدین عاقل صاحب کے یہاں سننے کو ملا اس کی مٹھاس کچھ الگ ہی تھی، آپ کے وعظ کا انداز کچھ نرالا ہی تھا۔
مولانا حیدرآباد کی گذشتہ مسلم تہذیب کی ایک علامت تھے، آپ کے والد مولانا حسام الدین فاضل رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اہل اللہ میں ہوتا تھا۔آپ ایک صوفی المشرب بزرگ تھے، یوں تو مولانا عاقل صاحب نے عصری علوم میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا،لیکن والد کی تربیت و تعلیم نے آپ کو ایک عالم دین کا مرتبہ دے دیا تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خاندانی طور پر خوش عقیدہ روایات کے رواج کے باوجود آپ کے والد مرحوم نے آپ کو بزرگوں کا احترام سکھایا تھا اور عقیدہ میں اعتدال کی راہ دکھائی تھی ،جس کی وجہ سے آپ کے روابط و تعلقات مسلک دیوبند کے علماء سے زیادہ استوار ہوئے اور آپ کا احترام یکساں طور پر اس حلقے میں کیا گیا۔
ہمارے مولانا شہباز اصلاحی رحمۃ اللہ کی رائے تھی کہ شمال کے لوگوں کے مقابلے میں جنوبی ہند میں خطابت کا فطری جوہر زیادہ پایا جاتا ہے۔مولانا عاقل صاحب کو سن کر اس کا صحیح اندازہ ہوتا تھا،تقریر کوئی علمی نکات سے پر اور بھاری بھرکم نہیں ہوتی تھی ، نہ کہیں الفاظ میں آورد کا احساس ہوتا تھا، باتیں سبھی سیدھی سادھی ، عوام کے دلوں میں سیدھے اترنے والیں،شہد میں دھلی ایسی خالص حیدرآباد کی دکنی زبان کم ہی سننے کو ملی،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دکنی اردو میں صادق حسین سردھنوی یا نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ رہے ہوں، ان میں بھی وہ بات کہاں جو مولانا کی خطابت میں تھی،واقعات کی ایسی منظر کشی کرتے کہ سماں بندھ جاتا ، ایسا لگتا جیسے سننے والے ان واقعات کا حصہ ہیں، صرف رلانے والے یا صرف ہنسانے والے تو ان آنکھوں نے کئی ایک دیکھے، لیکن چند منٹوں کے وقفہ میں ہنساتے ہنساتے رلانے اور رلاتے رلاتے ہنسانے کا ایسا فن کہیں اور نہیں دیکھا۔
مولانا عاقل صاحب علماء کے خطیب نہیں تھے ، ان کے مخاطب جاہل عوام تھے ، انہیں ان کی اصلاح کرنی تھی،ایسا خطیب زیادہ دیر تک واقعات کی صحت اور افکار و خیالات میں اعتدال کا لحاظ نہیں رکھ سکتا ،اسے اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لئے ہر رطب و یابس کو استعمال میں لانا ہوتا ہے۔لیکن ہم نے اس وقت محسوس کیا کہ عوامی خطیب ہونے کے باوجود شہادت حسین وغیرہ سے وابستہ واقعات میں آپ نے اعتدال سے تجاوز نہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی،غالبا یہ ان کے والد ماجد کی تربیت کا اثر تھا،
مولانا کو اہل حیدراباد کے روشن ماضی اور موجود ہ معاشی پستی کا شدت سے احساس تھا ، لہذا ان کی جدوجہد صرف تقریروں تک نہ رہی ، آپ نے رفاہی کاموں میں بھی حصہ لیا ،۱۹۷۰ء کے آس پاس قائم ہونے والے اپنی نوعیت کے اولین غیر سودی بنک طور بیت المال کی بھر پور مدد کی ، طور بیت المال کے بانی غالبا بشارت علی ان کا نام تھا مولانا تقریروں میں ساتھ ہوتے ، مدراس میں اہل خیر کو ان کے تعاون پر ابھارتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔
مولانا کو احساس تھا کہ خاص طور پر حیدرآباد دکن کے مسلمان پولیس اکشن کے بعد بہت خستہ حال ہوگئے ہیں۔ انہیں جاہلی رسوم ورواج سے نکال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف لوٹا نہایت ضروری ہے، لہذا آپنے پہلے پہل خواتین کی دینی تعلیم کے نظم و نسق پر توجہ دی ، پھر امارت شرعیہ بہار واڑیسہ کے طرز پر امارت ملت اسلامیہ قائم کی ، جس کے امیر کی نسبت سے آپ امیر ملت اسلامیہ کے لقب سے پہچانے گئے۔اس کے بعد آپنے مردوں میں علم دین کے فروغ کے لئے دارالعلوم حیدرآباد کی بنیاد ڈالی ، جس کا شمار دکن کی اہم دینی درسگاہوں میں ہوتا ہے۔اس درسگاہ کو معیاری بنانے کے لئے آپ نے دارالعلوم دیوبند ،جامعہ رحمانی مونگیر اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فارغ اور تجربہ کار علماء سے خوب استفادہ کیا۔اس کام میں آپ کو اپنے داماد جناب محمد عبدا لرحیم انصاری صاحب کا خوب تعاون حاصل رہا۔
مولانا سے ہماری کئی ایک ملاقاتیں رہیں ، غالبا ۱۹۸۲ء میں پہلے پہل دبی تشریف لائے تو خوب ساتھ رہا،اس زمانے میں یہاں جمعیت تربیت اسلامی کے پلیٹ فارم سے برصغیر کے افراد میں دینی و دعوتی کام ہوا کرتا تھا، یہیں سے اکابر علماء کی نادر تقاریر کے کیسٹوں کا ایک سلسلہ پیغام اسلام کیسٹ سیریز کے عنوان سے شروع کیا گیا تھا، جوکہ اپنی نوعیت کا اولین سلسلہ تھا، مولانا نے اس سلسلے کے آغاز پر ہماری بڑی ہمت افزائی کی اور جب ہمارے ہاتھوں میں مولانا سید ابو الاعلی مودوی رحمۃ اللہ کے درس سورہ فاتحہ اور سورہ ق کے کیسٹ دیکھے تو ان کی باچھیں کھل گئیں ۔ بڑی حسرت اور محبت سے یہ کیسٹ ہم سے طلب کئے۔ اس کے دو ایک سال کے بعد دوبار ہ آپ کی تشریف آوری ہوئی ، اس زمانے میں استقبال رمضان پر آپ کی تقریر سے ویڈیو تقاریر کی ریکارڈنگ کا سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا۔مولانا کی یہ آڈیو تقاریر عرصہ ہوا ہمارے ویب سائٹ اردو آڈیو ڈاٹ کام http://www.urduaduio.com پر پیش کی جاچکی ہیں۔
مولانا نے شاہ بانو کیس کے دوران پورے ہندوستان کا دورہ کر کے مسلمانان ہند کو جھنجھوڑا ،چونکہ سفر زیادہ تر ریل گاڑی سے ہوا کرتا تھا ، اور بھٹکل میں ابھی ریل کی پٹڑی نہیں بچھی تھی تو مولانا قریب منگلور تک آکر چلے گئے، کہنے لگے بھٹکل کانام بہت سنا تھا ، بھٹکل والوں سے ملاقاتیں بھی ہر جگہ ہوئیں ،لیکن ہندوستان کے طول وعرض میں سفر کے دوران بھٹکل کہیں نہیں ملا،بھٹکل جانے کے لئے باقاعدہ نیت اور احرام کی ضرورت پڑتی ہے اور آپ نے باقاعدہ نیت کے ساتھ بھٹکل کا سفر کیا۔جس کی یادیں آج بھی دیکھنے والوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔
مولانا نے آندھرا پردیش کے گذشتہ الیکشن میں کھل کر کانگریس کا ساتھ دیا اور مرکز میں بی جے پی کو مضبوط کرنے والی پارٹی کو ہرانے میں ایک کلیدی کردا ر ادا کیا ، غالبا اس طرح کھل کر آپ نے پہلی مرتبہ الکشنی سیاست میں حصہ لیا تھا،
بیاسی سال ایک انسان کی فطری عمر ہوتی ہے، اس عمر کو طویل بھی کہا جاتا ہے، لیکن جب ایسے کسی سایہ درخت کی چھاوں سر سے اٹھ جاتی ہے تو تپتی دھوپ کی تپش محسوس ہونے لگتی ہے، اپنے باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد ایک یتیم کا احساس بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے، ایک ایسے دور میں جب کہ رواداری آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے سے اٹھتی جارہی ہے،ایک حدی خاں کی آواز سے فضا خاموش ہوجائے تو خلا میں جینے کا احسا س تو ہوگا ہی۔مولانا کے ہمارے درمیان سے اٹھ جانے کا احساس بھی مدتوں قوم کو محسوس ہوگا،۔اس گئے گذرے دور میں مولانا جیسی شخصیات خدا کی ایک نعمت ہیں۔ آج خداکی ایک بڑی نعمت ملت اسلامیہ ہندیہ سے چھن گئی ہے، اللہ اس کا نعم البدل عطا کرے ، اور ملت کی سربلندی کی لئے جو خدمات مرحوم نے انجام دی ہیں ، انہیں شرف قبولیت بخش کر خدا ئے تعالی انہیں ان کے بلند ی درجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین
۱۲۔۰۳۔۲۰۱۰ء
عبد المتین منیری ۔بھٹکل
ایڈیٹر اخباروافکارڈاٹ کام
ammuniri@gmail.com
حیدرآباد دکن سے یہ غمگین خبر موصول ہوئی ہے کہ ٓاج بروز جمعہ ۱۲ ؍ مارچ کی صبح مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب نے ۸۲ سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا ۔ پھر ظہر بعد انٹرنٹ پر حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد سے ہزاروں معتقدیں کے کاندھوں پر اٹھتے ہوئے جنازے کی تصویریں بھی نظر سے گذریں۔ جو اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اللہ کا ایک مقبول بندہ اس جہاں سے کوچ کرگیا ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولانا کو ہم نے پہلی بار ۱۹۷۰ء کے آس پاس مدراس میں دیکھا تھا، عمر کوئی چالیس کے آس پاس رہی ہوگی۔ڈاڑھی بالکل سیاہ تھی۔سفید شیروانی ، سرپر سفید عمامہ ، اس پر سفید غترہ یا رومال ، رنگ گورا ، ناک لمبی ، قد میانہ درازی مائل،چال ڈھال ایسی کہ دیکھنے والے کو اپنی طرف مائل کرکے دل میں اپنی محبت بٹھادے،اس وقت آج کا شہر چنئی جو کہ مدراس کہلاتا تھا یوں تو ریاست ٹامل ناڈو کا صدر مقام تھا ، لیکن اس میں اردو بولنے والوں کے چند علاقے بھی تھے ، مشہور عالم بنی مل Binnys کے پڑوس میں شولے، مونٹ روڈ کے قریب ٹریپلیکین روڈ اور پیریمیٹ ، چند اور علاقے اور بھی تھے،لیکن شولے کی مسجد اعظم جہاں ہمارے قاضی شہر بھٹکل مولانا ملا اقبال ندوی کے ایک عزیز امام تھے، اور ٹریپلیکین کی شاہی مسجد والاجاہی میں ماہ ربیع الاول اور محرم الحرام میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شہادت حسین رضی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے اردو کے واعظ اور خطیب دس بارہ دن ان ایام کی مناسبت سے تقریر یں کرنے آیا کرتے تھے، پیریمیٹ مسجد میں موسموں کی کوئی تخصیص نہیں تھی ، وہاں پر شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ کے ایک شاگرد رشید اور سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہم درس ایک پٹھان عالم دین امام و خطیب تھے، یہاں پر وقتا فوقتا حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد انظرشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ مختلف اکابر کے وقتا فوقتا بیانات ہوتے رہتے تھے۔
شولہ کی مسجد اعظم ہمارے جمالیہ عربک کالج سے بہ نسبت قریب پڑتی تھی اور یہاں ہرسال پابند ی سے مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب جنہیں ہم آج مرحوم مغفور کہنے پر مجبور ہیں، ربیع الاول اور محرم کی مناسبت سے سالہا سال تک میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بیانات دینے کے لئے آیا کرتے تھے۔
ہمیں اپنی مختصر زندگی میں بہت سارے خطیبوں اور واعظوں کو سننے اور کئی ایک کے بیانات اور تقریروں کا انتظام کرنے کے مواقع نصیب ہوئے ، لیکن وعظ وخطابت کا جو انداز ہمیں مولانا حمید الدین عاقل صاحب کے یہاں سننے کو ملا اس کی مٹھاس کچھ الگ ہی تھی، آپ کے وعظ کا انداز کچھ نرالا ہی تھا۔
مولانا حیدرآباد کی گذشتہ مسلم تہذیب کی ایک علامت تھے، آپ کے والد مولانا حسام الدین فاضل رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اہل اللہ میں ہوتا تھا۔آپ ایک صوفی المشرب بزرگ تھے، یوں تو مولانا عاقل صاحب نے عصری علوم میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا،لیکن والد کی تربیت و تعلیم نے آپ کو ایک عالم دین کا مرتبہ دے دیا تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خاندانی طور پر خوش عقیدہ روایات کے رواج کے باوجود آپ کے والد مرحوم نے آپ کو بزرگوں کا احترام سکھایا تھا اور عقیدہ میں اعتدال کی راہ دکھائی تھی ،جس کی وجہ سے آپ کے روابط و تعلقات مسلک دیوبند کے علماء سے زیادہ استوار ہوئے اور آپ کا احترام یکساں طور پر اس حلقے میں کیا گیا۔
ہمارے مولانا شہباز اصلاحی رحمۃ اللہ کی رائے تھی کہ شمال کے لوگوں کے مقابلے میں جنوبی ہند میں خطابت کا فطری جوہر زیادہ پایا جاتا ہے۔مولانا عاقل صاحب کو سن کر اس کا صحیح اندازہ ہوتا تھا،تقریر کوئی علمی نکات سے پر اور بھاری بھرکم نہیں ہوتی تھی ، نہ کہیں الفاظ میں آورد کا احساس ہوتا تھا، باتیں سبھی سیدھی سادھی ، عوام کے دلوں میں سیدھے اترنے والیں،شہد میں دھلی ایسی خالص حیدرآباد کی دکنی زبان کم ہی سننے کو ملی،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دکنی اردو میں صادق حسین سردھنوی یا نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ رہے ہوں، ان میں بھی وہ بات کہاں جو مولانا کی خطابت میں تھی،واقعات کی ایسی منظر کشی کرتے کہ سماں بندھ جاتا ، ایسا لگتا جیسے سننے والے ان واقعات کا حصہ ہیں، صرف رلانے والے یا صرف ہنسانے والے تو ان آنکھوں نے کئی ایک دیکھے، لیکن چند منٹوں کے وقفہ میں ہنساتے ہنساتے رلانے اور رلاتے رلاتے ہنسانے کا ایسا فن کہیں اور نہیں دیکھا۔
مولانا عاقل صاحب علماء کے خطیب نہیں تھے ، ان کے مخاطب جاہل عوام تھے ، انہیں ان کی اصلاح کرنی تھی،ایسا خطیب زیادہ دیر تک واقعات کی صحت اور افکار و خیالات میں اعتدال کا لحاظ نہیں رکھ سکتا ،اسے اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لئے ہر رطب و یابس کو استعمال میں لانا ہوتا ہے۔لیکن ہم نے اس وقت محسوس کیا کہ عوامی خطیب ہونے کے باوجود شہادت حسین وغیرہ سے وابستہ واقعات میں آپ نے اعتدال سے تجاوز نہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی،غالبا یہ ان کے والد ماجد کی تربیت کا اثر تھا،
مولانا کو اہل حیدراباد کے روشن ماضی اور موجود ہ معاشی پستی کا شدت سے احساس تھا ، لہذا ان کی جدوجہد صرف تقریروں تک نہ رہی ، آپ نے رفاہی کاموں میں بھی حصہ لیا ،۱۹۷۰ء کے آس پاس قائم ہونے والے اپنی نوعیت کے اولین غیر سودی بنک طور بیت المال کی بھر پور مدد کی ، طور بیت المال کے بانی غالبا بشارت علی ان کا نام تھا مولانا تقریروں میں ساتھ ہوتے ، مدراس میں اہل خیر کو ان کے تعاون پر ابھارتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔
مولانا کو احساس تھا کہ خاص طور پر حیدرآباد دکن کے مسلمان پولیس اکشن کے بعد بہت خستہ حال ہوگئے ہیں۔ انہیں جاہلی رسوم ورواج سے نکال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف لوٹا نہایت ضروری ہے، لہذا آپنے پہلے پہل خواتین کی دینی تعلیم کے نظم و نسق پر توجہ دی ، پھر امارت شرعیہ بہار واڑیسہ کے طرز پر امارت ملت اسلامیہ قائم کی ، جس کے امیر کی نسبت سے آپ امیر ملت اسلامیہ کے لقب سے پہچانے گئے۔اس کے بعد آپنے مردوں میں علم دین کے فروغ کے لئے دارالعلوم حیدرآباد کی بنیاد ڈالی ، جس کا شمار دکن کی اہم دینی درسگاہوں میں ہوتا ہے۔اس درسگاہ کو معیاری بنانے کے لئے آپ نے دارالعلوم دیوبند ،جامعہ رحمانی مونگیر اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فارغ اور تجربہ کار علماء سے خوب استفادہ کیا۔اس کام میں آپ کو اپنے داماد جناب محمد عبدا لرحیم انصاری صاحب کا خوب تعاون حاصل رہا۔
مولانا سے ہماری کئی ایک ملاقاتیں رہیں ، غالبا ۱۹۸۲ء میں پہلے پہل دبی تشریف لائے تو خوب ساتھ رہا،اس زمانے میں یہاں جمعیت تربیت اسلامی کے پلیٹ فارم سے برصغیر کے افراد میں دینی و دعوتی کام ہوا کرتا تھا، یہیں سے اکابر علماء کی نادر تقاریر کے کیسٹوں کا ایک سلسلہ پیغام اسلام کیسٹ سیریز کے عنوان سے شروع کیا گیا تھا، جوکہ اپنی نوعیت کا اولین سلسلہ تھا، مولانا نے اس سلسلے کے آغاز پر ہماری بڑی ہمت افزائی کی اور جب ہمارے ہاتھوں میں مولانا سید ابو الاعلی مودوی رحمۃ اللہ کے درس سورہ فاتحہ اور سورہ ق کے کیسٹ دیکھے تو ان کی باچھیں کھل گئیں ۔ بڑی حسرت اور محبت سے یہ کیسٹ ہم سے طلب کئے۔ اس کے دو ایک سال کے بعد دوبار ہ آپ کی تشریف آوری ہوئی ، اس زمانے میں استقبال رمضان پر آپ کی تقریر سے ویڈیو تقاریر کی ریکارڈنگ کا سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا۔مولانا کی یہ آڈیو تقاریر عرصہ ہوا ہمارے ویب سائٹ اردو آڈیو ڈاٹ کام http://www.urduaduio.com پر پیش کی جاچکی ہیں۔
مولانا نے شاہ بانو کیس کے دوران پورے ہندوستان کا دورہ کر کے مسلمانان ہند کو جھنجھوڑا ،چونکہ سفر زیادہ تر ریل گاڑی سے ہوا کرتا تھا ، اور بھٹکل میں ابھی ریل کی پٹڑی نہیں بچھی تھی تو مولانا قریب منگلور تک آکر چلے گئے، کہنے لگے بھٹکل کانام بہت سنا تھا ، بھٹکل والوں سے ملاقاتیں بھی ہر جگہ ہوئیں ،لیکن ہندوستان کے طول وعرض میں سفر کے دوران بھٹکل کہیں نہیں ملا،بھٹکل جانے کے لئے باقاعدہ نیت اور احرام کی ضرورت پڑتی ہے اور آپ نے باقاعدہ نیت کے ساتھ بھٹکل کا سفر کیا۔جس کی یادیں آج بھی دیکھنے والوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔
مولانا نے آندھرا پردیش کے گذشتہ الیکشن میں کھل کر کانگریس کا ساتھ دیا اور مرکز میں بی جے پی کو مضبوط کرنے والی پارٹی کو ہرانے میں ایک کلیدی کردا ر ادا کیا ، غالبا اس طرح کھل کر آپ نے پہلی مرتبہ الکشنی سیاست میں حصہ لیا تھا،
بیاسی سال ایک انسان کی فطری عمر ہوتی ہے، اس عمر کو طویل بھی کہا جاتا ہے، لیکن جب ایسے کسی سایہ درخت کی چھاوں سر سے اٹھ جاتی ہے تو تپتی دھوپ کی تپش محسوس ہونے لگتی ہے، اپنے باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد ایک یتیم کا احساس بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے، ایک ایسے دور میں جب کہ رواداری آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے سے اٹھتی جارہی ہے،ایک حدی خاں کی آواز سے فضا خاموش ہوجائے تو خلا میں جینے کا احسا س تو ہوگا ہی۔مولانا کے ہمارے درمیان سے اٹھ جانے کا احساس بھی مدتوں قوم کو محسوس ہوگا،۔اس گئے گذرے دور میں مولانا جیسی شخصیات خدا کی ایک نعمت ہیں۔ آج خداکی ایک بڑی نعمت ملت اسلامیہ ہندیہ سے چھن گئی ہے، اللہ اس کا نعم البدل عطا کرے ، اور ملت کی سربلندی کی لئے جو خدمات مرحوم نے انجام دی ہیں ، انہیں شرف قبولیت بخش کر خدا ئے تعالی انہیں ان کے بلند ی درجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین
۱۲۔۰۳۔۲۰۱۰ء