میاں فضلو کی نوکری :: ابو طارق حجازی

Moderator: munir-armaan-nasimi

Post Reply
User avatar
Abu Tariq Hijazi
-
-
Posts: 77
Joined: Sat Jul 03, 2010 10:25 am
Location: Jeddah, Saudi Arab
Contact:

میاں فضلو کی نوکری :: ابو طارق حجازی

Post by Abu Tariq Hijazi »

میاں فضلو کی نوکری
ابو طارق حجازی
یہ جب کی بات ہے جب میاں فضلو جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے کوئی بات بھی نہیں پوچھتا تھا اچانک ایک دن میرے پاس آئے عمدہ سلکن شیروانی لٹھے کا پاجامہ سیاہ بوٹ سر پر سنہری کلاہ کا طرہ چمک رہا تھا میں نے انجان بن کر پوچھا آپ کا نام ! فرمانے لگے فضل محمد خان مصاحب نواب جام نگر ۔۔۔ میں نے پلٹ کر کہا یہ دھونس کسی اور پر جمانا مجھے تو سیدھی بات بتاؤ یہ تم دھوڑی کی جوتی سے کانپوری بوٹ تک کیسے پہونچے ۔ میاں فضلو فوراً اپنی اوقات پر اتر آئے اور میرے پاس کھسک کر کان میں کہنے لگے مجھے نواب صاحب کے یہاں حاضری مل گئی ہے اب تو ہم بھی سنبھل کر بیٹھ گئے اور ان کی کارگذاری سننے لگے ۔

انھوں نے کہنا شروع کیا ۔ ہوا یوں کہ
ایک صاحب ہمیں نواب صاحب کے دربار میں لے گئے ۔ آپ کو معلوم ہے یہ ساری ریاست ان کی ہے بڑے رتبے والے ہیں عجیب بات ہے بہت محبت سے ملے اپنے قریب بلایا اور کہا کبھی کسی بات کی فکر مت کرنا کوئی بات بھی پریشانی کی ہو فوراً مجھے بتادینا میں تمہاری مدد کروں گا ، انھوں نے مجھے اپنا فون نمبر بھی لکھوادیا ۔

میں نے بے چینی سے پوچھا آگے کیا ہوا ، کیاکام دیا تم کو ؟
کام کچھ بھی نہیں ، بس یہ کہا صبح شام سلام کیلئے آجایا کرو ۔ کھانا تم کو شاہی دستر خوان سے ملتا رہے گا۔ ہماری ریاست میں جو لوگ ہم سے واقف نہیں ہیں ان کو ہمارے بارے میں بتاتے رہنا ۔ کوئی برائی کرے اسکو سمجھانا کوئی اچھے کام کرے ہم سے ملاقات کرنا چاہے اس کو ہمارے پاس لے آنا ۔ اور ہاں یہ تمہارے لئے شاہی وردی ہے اس کو پہنا کرو لوگ تمہاری عزت کریں گے

میاں فضلو یہ بیان کر ہی رہے تھے کہ ان کی نظر ہمارے چہرے پر پڑی اور وہ اچھل کر بولے ارے آپ رو رہے ہیں یہ آنسو کس بات کے یہ تو خوشی کی بات ہے
میں نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے کہا ’’ میاں فضلو میں اپنی بدنصیبی پر رو رہا ہوں ‘‘ میں بھی ایک نواب کا نوکر ہوں بلکہ وہ تو نوابوں کا نواب ہے ۔ یہ ساری ریاست اسی کی ہے بڑی طاقت والا ہے وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے ۔ اس نے بھی مجھ سے کہا گھبرانا مت جب کوئی بات ہومجھے پکارلینا میں فوراً تمہاری مدد کروں گا ۔ اس نے بھی مجھ سے کہا بس دن میں چند بار سلام کے لئے آجایاکرو ۔ اور جو لوگ میری ذات کو نہیں جانتے ان کو میرے بارے میں بتایا کرو ، جو برائی کرے اس کو روکو ، جو بھلائی کرے اسکی مدد کرو جومجھ سے ملنا چاہے اسے میرے دربار میں لے آؤ ، اپنے کھانے پینے کی فکر نہ کرنا ہمارے شاہی دستر خوان سے روزانہ تمہیں توشہ پہونچتا رہیگا ، اور ہاں یہ تمہاری وردی ہے اس کو پہنا کرو‘‘

میاں فضلو چونک کر بولے ’پھر آپ نے کیا کیا؟
میں نے روتے ہوئے کہاْ ... میں نے کچھ بھی نہیں کیا نہ وردی پہنی نہ سلام کو گیا نہ کسی کو اسکے بارے میں بتایا۔۔۔۔
بس روز اسکے یہاں سے توشہ آتا ہے وہ میں کھا لیتا ہوں ۔
وہ بولے جو ملازم مالک کا کچھ کام نہیں کرتے مفت کا مال کھاتے ہیں تنخواہیں لیتے ہیں لوگ ان کو نمک حرام کہتے ہیں ۔
میں نے کہا ۔ فضلو تم سچ کہتے ہو
Post Reply