طرحی غزل
شبِ فراق میں یہ لطف مجھ پہ عام ہوا
کبھی ستارے کبھی چاند ہمکلام ہوا
یہ زندگی تو کبھی اتنی مہربان نہ تھی
’’ بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا ‘‘
کبھی چراغ جلانے کی میں نے بات جو کی
تو میری ضد میں ہواؤں کا اہتمام ہوا
میں اپنے چہرے پہ سچ لے کے سامنے آیا
مگر یہ تمغۂ حق آئنے کے نام ہوا
محبتوں کی روش تو پڑی رہی سونی
عداوتوں کا چلن ہی جہاں میں عام ہوا
ہے کس کو کتنی محبت، ہے کس میں کتنا خلوص
کھلے گا پھر جو کبھی دوستوں سے کام ہوا
تو گاؤں کے یہ شب و روز یاد آئیں گے
اگر فصیح کبھی شہر میں قیام ہوا
شاہین فصیح ربانی