Majmoua Dhoop Aor Saieybaan.Syed Anwer Jawaid Hashmi

Kuhnah mashq ShoAraa kaa kalaam jo beHr meiN hounaa zaroori hei

Moderator: Muzaffar Ahmad Muzaffar

Post Reply
sajhashmi
-
-
Posts: 554
Joined: Thu Oct 23, 2008 7:40 am

Majmoua Dhoop Aor Saieybaan.Syed Anwer Jawaid Hashmi

Post by sajhashmi »



دھوپ سائبان


سید انور جاوید ہاشمی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید







حمدِ رب جلیل




عمل کی ر ا ہ راہِ زیست کا عنوان ہو جائے
خدا کے حکم پر چلنا بہت آ سا ن ہو جائے

خدا کے حکم سے سر تا بیا ں ، توبہ معاذ اللہ
ابھی مہلت ہے تائب جو بھی نا فر ما ن ہو جائے

یہ نافرمانیاں ا نسان کو شیطاں سکھاتا ہے
کہ اُس کی پیروی جو بھی کرے ہلکان ہو جائے

سمجھ لیں آج گر ہم احسنِ تقویم کے معنی
یہ پستی دُور ہو انسان عالی شان ہو جائے

مدینے تک رسائی اذنِ ربی سے ملے مجھ کو
مر ے ما لک حضوری کا کوئی سامان ہو جائے
٭٭٭



یہی ہے مُدعّائے دل کرم کر دے مرے اللہ
مر ا عاجز قلم مُعجز رقم کر دے مرے اللہ

نہ اُلجھیں کارِ دُنیا میں مری آنکھیں یہ میرا دل
مری ہر سعی و کاوش مُحترم کر دے مرے اللہ

تمنائے زیارت بھی مگر اسبابِ حسرت بھی
جو تو چاہے قدم سُوئے حرم کر دے مرے اللہ

نہ میں صُورت پہ اتراؤں نہ میں دولت پہ اتراؤں
وسیلہ حمد کا عزت بھر م کر دے مرے اللہ

حر م کے بعد بطحا اور طیبہ پر نظر ٹھہرے
مقامات ِ مُقدس کو بہم کر د ے مرے اللہ
٭٭٭


شہ زماں کے لیے وقف یہ قلم کر دوں ‌‌
میں اس جبیں کو درِ مصطفٰے پہ خم کر دوں

کہاں کی فکر، کہاں تاب یہ قلم لکھے
تمام حرف بھی کم ہوں اگر ر قم کر دوں

کہا کہ ’رحمت عالم مجھے بنایا گیا
جہاں سے دُور ہر اک رنج، ہر الم کر دوں ‘

میں نعت لکھتا ہوں توفیق مل گئی ہے مجھے
منافقت بھی ذرا زندگی سے کم کر دوں

شِفا ہے ا سمِ محمد ّ میں آؤ بیمارو
شفا ملے گی، اگر چاہتے ہو دَم کر دوں
٭٭٭





تم نہیں میں رہو کہ ہاں میں رہو
خلوتی ہوکے کیوں گماں میں رہو

ہم سے تو اک جہاں نہ دیکھا گیا
لوگ کہتے ہیں دوجہاں میں رہو

جانے کس نے ہوا سے کہہ ڈالا
کشتیاں چھوڑو بادباں میں رہو

دور تک رہ گزر ہے بے سایہ
دیر تک دھوپ سائباں میں رہو

سب مقدر کے کھیل لگتے ہیں
رنج جھیلو کہ رائگاں میں رہو

آخر اک روز آئے گی یہ ندا
اب زمیں چھوڑو آسماں میں رہو
٭٭٭



کہنے کی بات ہے تو کہو جانِ جاں کہو
توڑو سکوت، مہر بہ لب کچھ تو ہاں کہو

ٹوٹا جو شاخ سے تو دوبارہ نہ جڑ سکے
دل پھول مثل تھا کہ نہیں ! گلرخاں کہو

جتلا رہے ہو اپنی سخن سازیاں ہمیں
حاصل ہوئی ہیں کتنی پشیمانیاں کہو

وہ آئینہ مثال شناسا کدھر گئے
آخر کہاں چلی گئیں وہ شوخیاں کہو

دنیا سے دل کو پھیر لیا ہے تو ہاشمی
مسجد میں جا کے بیٹھ رہو بس اذاں کہو
٭٭٭






دکھائی دیتی ہے ہر سو خوشی کی لہر ہمیں
کہا ہے جب سے کسی نے غریب شہر ہمیں

ذرا سی بات پہ ناراض ہم رہیں کتنا!
گوارا یوں بھی کہاں سارے اہلِ دہر ہمیں

ترے وجود کی خوشبو اُڑا کے لائی ہیں
وہ ساعتیں جو کبھی لگ رہی تھیں زہر ہمیں

وہ کون دوسرا اس خواب گاہ میں آیا
یہ کون چھیڑنے آتا ہے پچھلے پہر ہمیں

شبانہ روز حصارِ نظر میں رکھتے ہیں
بلاسبب نہیں تکتے یہ ماہ و مہر ہمیں

رواں دواں ہے اسی میں سفینۂ غمِ دل
سو دیکھیں لے کے کہاں جائے اب یہ بحر ہمیں
٭٭٭



مشغلہ شعر و سخن کا یوں ہی جاری رکھیے
لفظ رنگیں ہوں، غزل روح سے عاری رکھیے

بر سر، عام کیا کیجیے من جو چاہے
آپ سے کس نے کہا لاج ہماری رکھیے

صبر کیا چیز ہے عجلت کی چمک کے آگے
شکوا کرتے میں زباں اور کراری رکھیے

داہنی سمت رکھیں مہرِ جہاں تاب اگر
بائیں گوشے میں وہیں بادِ بہاری رکھیے

رہے دورانِ ملاقات حدِ فاصل بھی
کیا ضروری ہے ہر اک شخص سے یاری رکھیے
٭٭٭






نور ایسا ہو کہ جو ارض و سماءروشن کرے
اِذن ربیّ تھا اُسے غارِ حرا روشن کرے

میری نظروں میں یقیناً وہ بڑا انسان ہے
جو محبت کے دیے کو جا بجا روشن کرے

آدمی محروم ہو یا بر سرِ پیکار ہو
احتیاج اپنی سرِ طاقِ دعا روشن کرے

جو سجھائے روشنی بھٹکے ہوؤں کو راہ میں
ایسی بینائی خدا رکھے خدا روشن کرے

وہ جلائے گا چراغِ آگہی، جو فکر میں
میر کا احساس، طرزِ میرزا روشن کرے

اک حقیقت ہاشمی اظہار میں روشن ہوئی
اک حقیقت میرا عکسِ آئینہ روشن کرے
٭٭٭




روگ دل کو لگائے بیٹھا ہے
سامنے آئینے کے بیٹھا ہے

کوئی تجھ سا نہیں جہاں میں کیا
تو جو ایسے اکیلے بیٹھا ہے

پشت دیوار سے لگائے ہوئے
گود میں تکیے رکھے بیٹھا ہے

کل بھی بیٹھے گا کیا اسی کروٹ
آج کروٹ پہ جیسے بیٹھا ہے

دھوپ کرنوں سے غسل کرنے کو
کیسے روزن وہ کھولے بیٹھا ہے

دیدہ و دل کو فرش راہ کیے
آئیے! کہتے کہتے بیٹھا ہے

میں فقط سوچتا ہی رہتا ہوں
وہ تو پہلے سے لکھّے بیٹھا ہے
٭٭٭



کھینچتے رنجِ رائگانی ہم
درد کہتے جو منھ زبانی ہم

ناگہاں دہر میں نہیں آئے
جائیں گے پھر بھی ناگہانی ہم

ہم نے جو کچھ سنا وہ دہرایا
پیش کرتے نہیں کہانی ہم

اک سخن ور یہ کہہ رہا تھا کل
اک سخنور ہیں خاندانی ہم

لکھتے رہتے ہیں ہاشمی سب کچھ
کرتے رہتے ہیں آنا کانی ہم
٭٭٭



بن پڑھے، بن سنے یقیں نہ کیا
لوگ کہتے رہے یقیں نہ کیا

چاند کا عکس گہرے پانی میں
دیکھتے رہ گئے یقیں نہ کیا

چل پڑے ہم تو طے ہوا رستا
ہیں ابھی فاصلے یقیں نہ کیا

زندگی، زندگی سمجھتے رہے
بن چکے دائرے یقیں نہ کیا

نسلِ آدم نہ ایک ہو پائی
آدمی بٹ گئے یقیں نہ کیا
٭٭٭





’’فنا فی اللہ ‘‘

وہ افغانی حسینائیں
جنھیں تنّور پر دیکھا
انھیں میں ایک پشمینہ تھی
اُس کا نام اس کے ساتھ بیٹھی
ایک لڑکی نے پکارا تھا:
مری پشمینہ! پش می نے
سُبحان اللہ سبحان اللہ
اچانک ایک چنگاری اُڑی
میں بالکونی سے یہ منظر دیکھتا تھا
پَٹ پُٹ پَٹا پٹ پھُٹ
کئی شعلے بھڑک کر
اُن حسیناؤں کے چہروں پر
گلابی، ارغوانی، آتشیں رنگوں کو بکھراتے
ہوا کے ساتھ محو رقص تھے
و اللہ!
یہ سارے آتشیں منظر
مری آنکھوں نے دیکھے، پَر
مرے سینے میں جو شعلے بھڑک اُٹھے
اُنھیں اب کون دیکھے گا؟
فنا فی اللہ فنا فی اللہ
٭٭٭




جتنی بھی تم سے ہے یقیں کر لو
دوستی تم سے ہے یقیں کر لو

میرا ایمان میرا سرمایہ
زندگی تم سے ہے یقیں کر لو

تم ہی پروردگارِ عالم ہو
بندگی تم سے ہے یقیں کر لو

ایک نسبت سے تم ہمارے ہو
ہر گھڑی تم سے ہے یقیں کر لو

پھر نہ منسوب عشق ہو گا مرا
یہ ابھی تم سے ہے یقیں کر لو

شور سنتا ہو میں زمانے کا
خامشی تم سے ہے یقیں کر لو

دیکھتے سب ہیں آئینہ لیکن
دل کشی تم سے ہے یقیں کر لو

جتنی حاصل ہوئی ہے آج تلک
آگہی تم سے ہے یقیں کر لو

رونق بزم شاعری بے شک
ہاشمی تم سے ہے یقیں کر لو
٭٭٭




کیا بتائیں یار کیا کیا جل گیا
آگ میں جلنا تھا جتنا جل گیا

آگ پہلے سوکھے پتوں میں لگی
اور پھر جنگل گھنا سا جل گیا

کس قدر حدت مری خواہش میں تھی
ہاتھ میں آتے ہی پیسا جل گیا

میں نے دیکھا راکھ ہوتی آنکھ سے
ایک بچے کا کھلونا جل گیا
٭٭٭



میں یک جا کرتا ہوں تقسیم آپ کرتے ہیں
کہ ریزہ ہوتا ہوں، دو نیم آپ کرتے ہیں

مجھے تو شائبہ رہتا ہے خواب کا اس میں
حقیقتوں کی جو تفہیم آپ کرتے ہیں

فنا کے بعد بقا ہے، فنا سے قبل بقا !
مگر کہاں اسے تسلیم آپ کرتے ہیں

بیان آپ کا ہے مستند سرِ محفل
اسی بیان کی تعلیم آپ کرتے ہیں

خود اپنی ذات میں محصور، فکر سے محروم
اک ایسے شخص کی تعظیم آپ کرتے ہیں
٭٭٭






کیا کہیں یاد آنا ہو جس کو جہاں یاد آتا نہیں
یوں بھی ہوتا ہے کچھ کچھ یہاں مہرباں یاد آتا نہیں

رہ گزر، چوکھٹیں، بام و در، کھڑکیاں یاد آتا نہیں
زندگی کیا ہوئے جن سے روشن رہی کہکشاں یاد آتا نہیں

کھو گئے سب مکیں زلزلے نے اُلٹ دیں وہ آبادیاں
راستو! کچھ کہو تھے جو آباد یاں یاد آتا نہیں

وقت کی دھوپ، تو نے حسیں مہ لقاؤں کو سنولا دیا
کیسے کیسے رہے بالیقیں، خوش گماں یاد آتا نہیں

ابتدا عشق کی، گھر سے نکلے تو پھر آبلہ پا رہے
ساعتِ عمرِ رفتہ نے پہنچا دیا تھا کہاں یاد آتا نہیں

عکس دھندلا گئے، آئینہ دل کا زنگار سا ہو گیا
زندگی سے ملا کیا ہمیں ماحصل رائگاں یاد آتا نہیں
٭٭٭






یہ شہر، شہرِ غزالانِ خوش نظر بھی ہے
نئی کراچی غریبوں کا مستقر بھی ہے

یہ وقت، دھوپ، خزاں و بہار، رات و دن
یقین کیجئے سحر بعد دوپہر بھی ہے

متاعِ عشق کی بابت بتائیں کیا تم کو
بیان و حرف میں الجھا ابھی ہنر بھی ہے

نہیں وہ شخص سرِ آئنہ نہیں آتا
حقیقتوں سے تصادُم کا اُس کو ڈر بھی ہے

غزل شعار کہاں نظم و ضبط دیکھتے ہیں
یہ نسخہ سہل بھی ہے اور کارگر بھی ہے

ورق مثال کھلی آنکھ بر سرِ راہے
نظر کے پیشِ نظر اور اک نظر بھی ہے

مقامِ شوق جسے کہہ رہا ہے میرا دل
اسی مقام سے آگے نیا سفر بھی ہے
٭٭٭



بت نما

جس طرح شہر کے میوزیم میں کوئی اسٹیچو
اپنے ماضی کی روایات کی غمازی کرے
میں بھی ہوٹل کی کسی میز پر اک کونے میں
اپنے ہونٹوں میں دبائے ہوئے فلٹر سگریٹ
جانے کس سوچ میں اسٹیچو بنا بیٹھا ہوں
میری آنکھیں جو چکتی تھیں ستاروں کی طرح
اب ان آنکھوں میں دھندلکوں کے سو ا کچھ بھی نہیں
میری آنکھیں میری پلکوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
٭٭٭


رفوگر میں اگر ہوتا

رفوگر میں اگر ہوتا رفو کرتا میں پیراہن
گلابوں کے (خیالوں میں)
جنھیں سفاک ہاتھوں نے اتارا شاخ سے
پھر بے لبادہ کر دیا اُن کو(کہ خوشبو کھو چکی رنگت اُڑی)
مچھیرا ہوتا تو گہرے سمندر سے سنہرے جال لے کر میں پکڑتا مچھلیاں تنہا
یہ کار عشق گو ہوتا نہیں آساں
اگر ہوتا میں شہزادہ
سدھارتھ کی طرح اپنی بیاہتا چھوڑ کر
نروان ساگر میں اُتر جاتا (زمانوں سے گزر جاتا)
مری تاریخ کے اچھے برے کردار اتنے ہیں
فلک پر تارے جتنے ہیں
ستارہ در ستارہ، کہکشاں در کہکشاں
چلتے رہو، دیکھو، سنو لیکن۔ زباں سے کچھ نہیں کہنا
٭٭٭




ہیپی نیو ٹیئرز

مجھے معلوم ہے
نیویارک، لندن، ماسکو، پیرس کی اور میونخ یا اٹلی کی گلیوں میں
بہت ہنگامہ آرائی ہوئی ہو گی
شراب و ناب چھلکانے کو
انسانوں کے کتنے ہی گروہوں نے زمانے کی طنابیں کھینچ لی ہونگی
وہاں پر لوگ اپنے سارے جذبے، دھڑکنیں ‌دل کی
اٹھائے اپنے ہاتھوں میں سڑک پر رقص کرنے آ گئے ہوں گے
کہیں کوڑے کے اوپر کوئی فاقہ مست بڑھیا
سال کہنہ کی گزر گاہوں سے جاتے
بیتے لمحے دیکھتی ہو گی
کئی دیوانے اُن رسموں کے آئینوں کو چکنا چور کرنے
جو انھیں مدت سے گھیرے ہوں
نئے ماڈل کی گاڑی
شیمپئن اور واڈکا میں مست ہو کر
اپنی محبوبہ کو اگلی سیٹ پر لے کر
جہانِ نو سے بھی آگے گئے ہوں گے
کراچی کی مضافاتی نواحی پست گلیوں میں
جہاں پر کوئٹہ سے آتی برفیلی زمستانی ہوا نے زندگی مفلوج کر دی ہے
میں اپنی تیسری دنیا کے لوگوں ‌کی روایت اور کلچر کے لیے
یورپ کے بخشے تحفے میں آئے ہوئے لُنڈا کے کپڑوں میں ٹھٹھرتا، کپکپاتا
آج تنہا گھومتا ہوں
سالِ نو کو ڈھونڈتا ہوں
لوگ محوِ خواب ہیں یا
زندگی کی تلخیوں کو کوستے ہیں
اور کچھ
کتوں ‌کی آوازوں میں ‌
سالِ نو کی آہٹ جاگتی ہے۔
٭٭٭



چھپا کر آنسوؤں میں پیش کر دیتے تبسم کیا
ہمیں تو ایک لگتے ہیں، خموشی کیا تکلم کیا

بہت دن ہو گئے وہ آئنہ صورت نہیں آیا
بکھر کر عکس اس کا آئنے میں ہو گیا گم کیا

کسی نظّارہ سازی کی تمنا مٹ گئی دل سے
نگاہوں سے ہوئے اوجھل فلک، خورشید و انجم کیا

چلو مانا کہ یکجائی سرِ محفل نہیں اچھی
بد ن کی بھی صدا سنتے نہیں، ہو آخرش تم کیا

حریفِ عشق کوئی سامنے درکار ہے یا پھر
خود اپنے آپ سے ہونے لگا ہے پھر تصادم کیا
٭٭٭




دکھ جو میں نے سمیٹا وہ سمٹا کہاں
کیا سمیٹے کوئی پھیلتا آسماں

حادثہ بے سبب تھا کہ یہ ناگہاں
آ گئیں ہاتھ میں میرے بیساکھیاں

ایک پل میں یہ کایا پلٹ ہو گئی
کتنی مشکل سے بنتی رہی ساکھ یاں

کیسا دنیا کمانے میں مشغول تھا
دیکھتی ہی رہی مجھ کو کروبیاں

زندگی اپنے ڈھب سے گزرتی رہی
زندگی ایک ہی ڈھب پہ رہتی کہاں

خواب دیکھا تو جیسے گنوائیں سبھی
چاہتیں، خواہشیں، رنج، مجبوریاں

کتنے آنسو کہ نکلے نہیں قلب سے
آ بسیں آنکھ میں کتنی تنہائیاں

وقت کٹتا نہیں قیدِ تنہائی میں
ہو گئیں جیسے یکساں بہار و خزاں

ماحصل عشق کا میں نے جانا اسے
دل کو بخشی گئیں جتنی رسوائیاں

رزق کے باب میں یہ سہارا بنے
کام آتے رہے میرے حرف و بیاں

اک شکایت کا دفتر کھلا رہ گیا
اک ندامت نے کھلنے نہیں دی زباں
٭٭٭






شجر کی چھایا بھی ہے سر پہ آسماں ہے ماں
زمیں کی وسعتیں محدود بے کراں ہے ماں

پیمبروں کو شرف حوا زادیوں سے ملا
عطائے ربیّ پیمبر کی پاسباں ہے ماں

سبق حیات کا آغاز ماں سے ہوتا ہے
حدیثِ مہد پڑھو پہلا سائباں ہے ماں

کبھی وہ ایڑی رگڑتے سے دور ہوتی ہے٭
کہیں پہ اپنے جوانوں کی نوحہ خواں ہے ماں

عظیم رشتہ و پیوند ہے یہ ماں کا بھی
بگڑ بھی جائے گر اولاد پھر بھی ماں ہے ماں

اسی کے قدموں میں جنت ازل میں لکھی گئی
جو بے اماں ہوں انھیں بخشتی اماں ہے ماں

٭ بی بی ہاجرہ، حضرت فاطمہؓ
٭٭٭



ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک
پھر ہوا نے بھی دکھا ڈالی ہمیں اپنی چمک

ایک ہی ناؤ کنارے سے کنارے کا سفر
گھر پلٹ آئے کماتے ہوئے دن بھر کی چمک

چاندنی پھیلی دریچوں سے دھواں اُٹھنے لگا
آسماں پر جو ہویدا ہوئی تاروں سی چمک

صبح سے ٹھنڈے پڑے چولھے میں پھر آگ جلی
بھوکے بچوں کی نگاہوں میں گئی روٹی چمک

آج کا رزق مُیسر چلو آیا تو سہی
چاند سے کہہ دو کوئی گھر میں مرے کل بھی چمک
٭٭٭



جس طرف کوئی کھڑکی، دریچہ نہ ہو اور مُمکن نہ ہو آسماں دیکھنا
اے مرے ہم نشیں، جان لو بالیقیں، جانتے بُوجھتے ہے وہاں دیکھنا

چشمِ پُر آب نے، بہتے سیلاب نے، آنکھ کھُلتے ہی بستر پہ ہم سے کہا
رائیگانی ہے گر خواب کا دیکھنا، رائیگاں ہی سہی رائیگاں دیکھنا

آنکھ سے خواب تک، رسم و آداب تک، جس قدر بھی نبھے، تم نبھاتے رہو
لامکاں سے مکاں تک مناظر سبھی، جو نظر آئیں اے خوش گماں دیکھنا

گفتگو میز پر معنویت سے پُر اور روّیوں میں لایعنیت عمر بھر
محفلوں کا چلن، غیبتوں میں مگن، بات سننا نہ لفظ و بیاں دیکھنا

شعر لکھتے ہوئے شخصیت کا بدل، پیش کر دیتی ہے ایک تازہ غزل
کیفیت خود پہ طاری ہوئی سو ہوئی، ہر گھڑی اِک عجب سا جہاں دیکھنا
٭٭٭



ڈر لگتا ہے ....

بیری کا اک پیڑ جہاں ہو، کھنڈر لگتا ہے

ڈر لگتا ہے
ڈر لگتا ہے اُن لوگوں کو
جن کے گھر میں بیری کا اک پیڑ لگا ہو
!

بچپن کیسے بیت گیا معلوم نہیں
معلوم سے نا معلوم تلک
یا نا معلوم سے علم کی سرحد تک آ کر
ان بیری والے پیڑوں پر
ہم نے جتنے کنکر مارے
اب اُن کی گنتی یاد نہیں
ہمیں یاد نہیں
لیکن یہ کو ئی اُفتاد نہیں
ہم کیوں ہیں پریشاں آج اتنے
اک بیری والے پیڑ تلے
دو چار جو کنکر آن گر ے
کیوں آنکھ میں آخر چبھنے لگے؟
بیری سے کھنڈر کی ہے نسبت کیا
نا معلوم سے علم کی سرحد تک آ کر
یہ بھید کھُلا
جن لو گوں کے گھر بیری کا پیڑ لگے
وہ آنے والے لمحوں سے ڈرتے رہتے ہیں
وقت سے پہلے ہی مرتے ہیں
موت سے پہلے مر جانے سے ڈر لگتا ہے
اُن لوگوں کو
جن کے گھر میں۔ بیری کا اک پیڑ لگا ہو
٭٭٭



کراچی نامہ

بڑے تھے سندھ مدرسہ جنہوں نے بنوایا
تھا ایک زینہ یہی پہلا اپنے قائد کا
وہ علم جس نے انھیں فیض یاب فرمایا
لیاری والے سمجھتے ہیں اس کو سرمایہ
تھی جہل و پستی میں ڈوبی وہ ساری آبادی
ہے فیض کا یہ کرشمہ کہ روشنی پہنچی
جو گھوڑے بان تھے،مزدور ، کار تک پہنچے
جو ذلتوں میں گھرے تھے ، وقار تک پہنچے
مثال علم کی شمع ، تو یہ تھے پروانے
تھے اور جانے یہاں کتنے ایسے دیوانے
بُرے ہیں وہ جو کسی سے عناد رکھیں گے
کراچی والے کہا ں اُ ن کو یاد رکھیں گے
بشیر و کاظم و محمود اور شمسی رہے
تھے آفتاب یہاں اور بختیاری رہے
ہے فیض ر بی جسے بخش دے وہ دانائی
رہے ہیں محترم ا لطاف و مصطفیٰ بھائی
تھے جامعہ کے نگہ باں عظیم وی سی تھے
ابا حلیم و قریشی اسی کراچی کے
ہیں تر مذی بھی کئی اور پیارے انساں بھی
رہے ہیں وی سی تو محمود اور احساں بھی
تھے ایک ڈاکٹر منظور اس کے اک وی سی
پھر آئے جالبی کے بعد ارتفاق علی
وہاب خان بنے شیخ جامعہ اس کے
سدھر گئے وہ نظامات دوستو تب سے
قدیر خان یہاں تھے جو ہیں کہوٹہ میں
تھے اور جانے یہاں کیسے کیسے طلبہ میں
ہماری مادر علمی ہی جامعہ ٹھہری
مشاعرے میں کئی بار سا معہ ٹھہری
ذکریا ساجد و انعام و مرتضٰی ہیں یاں
وقار و خاور و بلقیس و آمنہ ہیں یاں
رئیس کلیہ سائنس جن کے شعبے رہے
وہ اپنے ڈاکٹر ا فضا ل قا د ر ی جیسے
تھے ایک شمسی توانائی کے محقق یاں
بزرگ کہتے انھیں مجتبٰی کریم میاں
پڑھاتی تھیں یہاں مایا جمیل انگریزی
تھے اردو کلیہ میں ایک سبزواری بھی
سحر ہیں قاسم و منظور جیسے عالم ہیں
نہیں ہے لوگوں کو فرصت کہ سب کو یاد کریں
تھے کیسے کیسے یہاں نابغہ کراچی میں
وہ ڈاکٹر کہ رہے جامعہ کراچی میں
کہانی اپنے وطن کی جنہوں نے خوب لکھی
ہیں ایک سلمیٰ زمن بھی معلمہ اپنی
تھے جامعہ سے کئی سال پہلے و ا بستہ
ہے یونی کیریئنز کا آج بھی یہاں دستہ
جو اہل فن تھے ہمارا نہ ان سے نا تہ تھا
یہ لوگ ایسے تھے جن کا ادھار کھا تہ تھا
کہاں کا مرغ مسلّم، کہا ں کی بریا نی
یہ چائے تک نہ پلا سکتے تھے سلیمانی
نہیں تھی ان میں شرافت کی وضع و بو باس
پہن کے آتے تھے دفتر میں یہ اُٹنگے لباس
ہم ایسے لوگوں کو خاطر میں کس طرح لاتے
کہ واپسی کا کر ا یہ جو مانگنے آ تے
غرض کہ دل نے عجب کیفیات پائی تھیں
جو باتیں یاد نہیں ہیں وہ یاد آئی ہیں

کراچی نامہ نہیں گرچہ یہ خبر نا مہ
ہے چلتے پھرتے لکھا ہم نے یہ سفرنامہ
اُسی زمانے میں جب کوئی بھی نہ تھا یاور
بنے تھے دوست ہمارے فراست و سر و ر
سُخن تو خیر، مگر شخصیات تھیں ا علا
مشاعروں کو کیا کرتے تھے تہ و با لا
ملانے لائے جو ہم کو سلیم ا حمد سے
پھنسا کے ہم کو وہاں آپ دُور دور ر ہے
وہاں پہ اطہر و سجا د میر آ تے تھے
جمال پانی پتی دعوتیں کھلا تے تھے
سمجھتے فخر ا دیبو ں کی میزبانی کو
و ہ دور کرتے رفیقوں کی بدگمانی کو
یہیں پہ گاہے وہ باسط عظیم بھی آتے
سلیم ان سے غزل اور نظمیں سنواتے
بتاتے نقص کہا ں ہے کہاں لگی ٹھوکر
غضب خدا کا بڑے تھے وہ چین اسموکر

‪’کراچی نا مہ‘ نہیں گر چہ یہ خبر نا مہ
ہے چلتے پھرتے لکھا ہم نے یہ سفرنامہ
جو اپنے شہر کی تاریخ کو لکھا جائے
تو کس کو یاد رکھیں اور کسے بھلایا جائے
کراچی قائد اعظم کی راج دھانی رہی
اسمبلی تھی یہاں مرکزی حکومت تھی
یہ ایک حلقہ لگے مجھکو جیسے گھر آنگن
یہیں ملا ہے مجھے اعتبار شعر و سخن
میں عزم و عاصم و معراج و آغا سے مل کے
یہ سوچتا ہی رہا برسوں پہلے کیوں نہ ملے
یہاں رضی سے بھی احسن سلیم سے بھی ملا
صبا، نوید سے عا لم، کلیم سے بھی ملا
جمال و ساجد و حضرت نصیر یاں آئے
جواں بھی بزم میں اعجاز جیسے پیر آئے
قمر جمیل، رضی شوق ریڈیو پہ ملے
یہ علم و فن کے نگہباں ہمیں میسر تھے
جو ایک حلقہ یہاں تھا سلیم احمد کا
وہیں پہ ذکر سنا تھا شمیم احمد کا
ڈراما، شاعری، نقد و نظر، مکالمہ بھی
غزل بھی، نعت، سلام اور تھا مسالمہ بھی
اسی زمانے میں جب کوئی بھی نہ تھا یاور
بنے تھے دوست ہمارے فراست و سرور
سخن تو خیر، مگر شخصیات تھیں اعلا
بڑے بڑوں کو یہ کرتے رہے تہہ و بالا
ملانے لائے جو ہم کو سلیم احمد سے
ہمیں ملایا مگر آپ دور دُور رہے
یہاں پہ آتے رہے ہیں علیم و ہمدانی
ضیاء و میر کو رہتی نہ تھی پریشانی
ذہین شاہ، حسن عسکری، مثنیٰ کا
یہ بزم تھی کہ جہاں بیشتر ہی ذکر ہوا
جناب ضیاء جالندھری، سجاد میر، پروفیسر احمد علی سید، جناب احمد ہمدانی، ساجد امجد، جمال احسانی، سرور اقبال، فراست رضوی، احمد جاوید، باسط عظیم، جاذب قریشی، جمال پانی پتی، سید قمر ہاشمی، پروفیسر انجم اعظمی اور کتنے ہی اہل علم و فن حلقۂ سلیم احمد، ارباب ذوق کی نشستوں علامہ اقبال لائبریری، عثمانیہ کالج، نبی باغ کالج، ریڈیو میں مکالمات کی فضا کو برقرار رکھتے رہے۔ میا رے کہاں گئے وے لوگ۔
٭٭٭








نذرِ غالب

اس اسم کا طلسم ابھی کھل نہیں رہا
یوں نغمگی پہ دل بھی مرا تل نہیں رہا

ا ک پل کو بھی گریز و تغافل نہیں ر ہا
پر کیا کہیں وہ رابطے کا پل نہیں ر ہا

یہ اور بات بزمِ سماعت سے دور ہوں
و ر نہ سخن گری میں تعطل نہیں ر ہا

فرصت غمِ ز ما نہ سے جب تک نہیں ملی
میں بھی اسیرِ نغمۂ بلبل نہیں ر ہا

ما نا گیا کسی سے نہ پہچان ہو سکی
صد شکر ناشناسی میں فن گھل نہیں رہا

نا پا بھی جاؤں گا کبھی تولا بھی جاؤں گا
جب تک کہ داغِ بے ہنری دھل نہیں رہا
٭٭٭


۲

طوفان اس کی راہ میں حائل نہیں رہا
تفریقِ ما و تو کا جو قائل نہیں رہا

شاید ہمارے عشق کی تفہیم تھی غلط
محفل میں کو ئی حور و شمائل نہیں رہا

سب اپنے دل کے زخم چھپاتے چلے گئے
کیا مرہم و علاج کہ گھائل نہیں رہا

حا لا ت نے ہر ایک کو زیر و زبر کیا
کرنے کو پیش کوئی دلائل نہیں رہا

اک عمر کا نباہ کوئی کھیل تو نہیں
بس یہ کسی کا پھر یہاں سائل نہیں رہا ٭٭٭



یہ چشمِ دیر خوابی ذرا دیر اگر کھلے
کیا جانے کون منظروں پہ یہ نظر کھلے

ٹوٹے طلسمِ خانۂ بے اعتبار اگر
دیکھے گا کون کسے ہمارے ہنر کھلے

ہستی رہے غبار میں یا پیچ و تاب میں
خود اپنے آ پ پر نہ کبھی بے خبر کھلے

نیرنگ جانیے کہ طلسمِ تماشا لب
لب بستگی کھلی تو لبوں کے ہنر کھلے

دولت سخن کی ملکِ خدا داد جانئے
جس کے کر م سے ہاشمی پہ ہفت در کھلے
٭٭٭



وادیِ تھر سن گیت پرانا ریت پہ ننگے پاؤں
پھر میری سنگت میں گانا ریت پہ ننگے پاؤں

ریت پہ ننگے پاؤں سر پر دھوپ کی اک اجرک
قافلہ ہے کس سمت ر و ا نہ ریت پہ ننگے پاؤں

سر پر مٹکا، گود میں بچہ، لب پر پیاس سجی
ڈھونڈے ما سی آ ب و دانہ ریت پہ ننگے پاؤں

الغوزہ، بینجو، ڈھولک، اکتارا ساتھ لیے
سائیں بجاتے گا تے جا نا ریت پہ ننگے پاؤں

ہاشمی تم نے کس دھُن میں یہ آج غزل چھیڑی
دیکھو سائیں جل نہیں جانا ریت پہ ننگے پاؤں
٭٭٭


رات سلگتی آنکھوں سنگ جو گزرے اُس رہداری سے
دیکھا اُس شرمیلی نار کو جسم چُرا تے سا ر ی سے

جانے کتنی راتیں جاگے نیندوں کا تاوان دیا
کتنی مشکل سے ہم پہنچے خواب تلک بیداری سے

خوابوں کی تعبیر سے پہلے آنکھیں جل کر راکھ ہوئیں
ہاتھ نہ آیا کچھ بھی تمنا کی بجھتی چنگاری سے

اِس کی اُس کی باتیں سن کر بات بنا لیتے ہیں کوئی
کون خیال کی گٹھڑی لائے یادوں کی الماری سے

فرہنگ میں الفاظ ملا کرتے ہیں جذبہ نہیں ملتا
شعر غزل میں سجا دیتے ہیں ہم جذبات نگاری سے
٭٭٭




سکون پاتیں مرے آنسوؤں سے دھُل کر کے
میں ا یک با ر تو ر و لیتا کاش کھُل کر کے

ہو ا کو دوش کیا دینا کہ کیا ملا اُس کو
کسی غریب کے جلتے دیئے کو گُل کر کے

جہاں بھی جائیں، تشخص اسی سے بنتا رہے
زبانِ اُردو رہی رابطے کا پُل کر کے

تو کیا ضروری ہے دنیا بھی مان لے اُس کو
جو شعر آپ کی میزاں سے آئے تُل کر کے

جو سوچئیے تو غزل کے لیے یہ کافی ہیں
کہے ہیں ہاشمی ہم نے جو پانچ کُل کر کے
٭٭٭







ٹوٹیں گے تار سُن لو اک روز جسم و جاں کے
تم جو بہار میں ہو شکوہ کناں خزاں کے

یادش بخیر وے بھی، کل تک یہاں رہے بھی
جانے کہاں گئے پھر سارے وہ در میاں کے

تم خود ہی دیکھ لو گے، کیا ہم سے پوچھتے ہو
شام عزا سجی ہے ماتم میں رفتگاں کے

اپنے سلیم احمد، سید سلیم احمد
بر سوں رہے ہیں ہم بھی نزدیک این و آں کے

ہر گز نہ پا سکو گے فن پر عبور اپنے
جب تک حصار میں ہو تم سود اور زیاں کے

دیوانگی نہ چھوڑی، بے گانگی نہ چھوڑ ی
شاعر بنے ہو پھر بھی جانے ہو تم کہاں کے
٭٭٭



گوشہ گیروں کو کیا کر تی ہے شہرت بد نام
میں بھی ہو جاؤں نہ اک دن کسی صورت بد نا م

آئینہ عکس نمائی سے گریزاں ہے تو پھر
کیوں کیے جائیں یہاں پھر قدو قامت بد نا م

عشق میں نا مہ بری کرتے رہیں چشم و لب
اب روابط کے لیے کیوں ہو سفارت بد نا م

اُس نے جو رنج دیے ہیں نہیں لکھے میں نے
بس یہی سوچ کے ہو جائے نہ چاہت بد نا م

بزم میں دادو ستائش سے نہیں ہے مطلب
کو ئی کہتا ہے بیاں، کوئی سماعت بدنام

کچھ نہ کچھ نام و نسب سے بھی تعلق ہو گا
نام جو میرا نہیں شعر کی نسبت بد نا م

نیک طینت بھی رہا ہو گا حقیقت میں کبھی
اب جو آ تا ہے نظر شخص نہایت بد نا م
٭٭٭



دل پر جو اختیار مرا چل نہیں رہا
پابند روزگار مسلسل نہیں رہا

پھر میرے نطق نے بھی خموشی شعار کی
جب مجھ سے ہم کلام وہ چنچل نہیں رہا

کل رہگزار عشق میں غالب تھے میر بھی
کس دور میں یہ کار مسلسل نہیں رہا

کیا خود سے را طے کی تمنا کرے کو ئی
بیٹھک ہنر وروں کی وہ ہو ٹل نہیں ر ہا

باد خزاں کے بعد ہے باد بہار بھی
یہ کو ئی سانحہ نہیں جو ٹل نہیں رہا
٭٭٭







پھر اُسی گزرے زمانے کی طلب رہتی ہے
چاند کو بام پہ لا نے کی طلب رہتی ہے

کس کی یا دیں مرے ہمراہ رہا کر تی ہیں
کس کوا سدل سے بھلا نے کی طلب رہتی ہے

گاؤں سے آ تا کو ئی گاؤں چلا جا تا ہے
اس کو آ نے، اُسے جا نے کی طلب رہتی ہے

دل نہیں ملتا فقط ہا تھ ملا لیتے ہیں
کیوں سماعت کو فسانے کی طلب رہتی ہے

ایک سو ایک بہانے وہ کیا کر تا ہے
ایک سے ایک بہانے کی طلب رہتی ہے

جا نے کس کس کو سنا آ تا ہوں نظمیں غز لیں
جا نے کس کس کو سنا نے کی طلب رہتی ہے
٭٭٭






ہاتھ سے امید کی ڈوری کبھی چھوٹی نہیں
سرزمین دل سے شاخِ سبز کب پھوٹی نہیں

رنجش و آلام کی زد سے بچا ہے کون یاں
واقعے سب برملا ہیں، داستاں جھوٹی نہیں

شعر کہتے آ رہے ہیں کب سے لہرو بحر میں
نقل یا تقلید سے محفل کو ئی لو ٹی نہیں

ہر زباں کا ذائقہ ملتا ہے چکھئے تو سہی
کونسی اردو زباں میں کہئے گل بوٹی نہیں

داد کے بدلے سرِ بزمِ سخن ملتی تھی کل
ہوٹ کر نے والے ہوٹر کیا یہاں ہو ٹی نہیں 1

میز پر ہو ٹل کی ہو جاتے ہیں یک جا شام کو
ہم قلم رسم تسلسل آج تک ٹوٹی نہیں
1 Hooty (feminine of Hooter)
٭٭٭






یارو سخن گری ابھی ٹھانی ہے اور بس
دو چار روز کی کہ کہانی ہے اور بس

کیسا وصال، ہجر کے آ زار تا بہ کہ
اُس حُسن کا نشہ ہے، جوانی ہے اور بس

کہتا ہے کون عشق میں مجنوں نے جان دی
فانی جہاں سے نقلِ مکانی ہے اور بس

کیا کام را ستے سے کسی راہ گیر کو
اک شمع رہ گزر میں جلانی ہے اور بس

خود ہی ٹپک پڑے گا ثمر انتظار کا
اک شاخ صبر ہم کو ہلانی ہے اور بس

بر پا ہے شور دادو ستائش کا بزم میں
یہ ہاشمی کی جادو بیانی ہے اور بس
٭٭٭




مری اپنی زمیں مرا اپنا فلک عرش و پاتا ل سے کیا لینا
مجھے چلنا ہے مجھے بڑھنا ہے سو عروج و زوال سے کیا لینا

سر آئنۂ تمثیل رہوں میں آپ ہی اپنی مثیل رہوں
کسی اور مثال کی حاجت کیا کسی اور مثال سے کیا لینا

کبھی وقت سے پہلے موت کسی روشن تارے کو بجھا بیٹھی
یا روشن تارا آپ بجھا ہمیں ایسے سوال سے کیا لینا

اک تخت غزل خوانی جو بچھا ہم اپنا سمجھ کے جا بیٹھے
بلقیس غزل طنزاً بولی تجھے رنج و ملال سے کیا لینا

وہ جو رزق کی راہ سجھاتے تھے مجھے روز و شب اکساتے تھے
وہ بیت گئے وہ بیت چکے اُن ماہ و سال سے کیا لینا

حیرت ہے نہ رنج و حسرت ہے حاصل ہمیں عیش و فرصت ہے
اب نان جویں کی فکر نہیں اب ساگ و دال سے کیا لینا

کیوں اُن کی روایت اپنا لی کیوں شعر و سخن کی بلا پالی
اقبال و میر کی صدیاں گئیں میر و اقبال سے کی لینا

یہ جو رنگ سخن نے بکھیرے ہیں یہی لفظ تو تیرے میرے ہیں
انھیں ہاشمی اپنی طلب میں رکھ تجھے اب پنڈال سے کیا لینا
٭٭٭



کمرے میں کوئی آنکھیں میچے بیٹھا تھا
چاند سرہانے کھڑکی کھولے بیٹھا تھا

دفتر جاتے وقت بسیں کب ملتی ہیں
میں مشکل سے جیسے تیسے بیٹھا تھا

بھوک سجی تھی دسترخوان کے بیچ کہیں
پانی کا جگ پیاس چھپائے بیٹھا تھا

انٹر نیٹ پہ اس سے باتیں ہوتی تھیں
یوں جیسے وہ سامنے آ کے بیٹھا تھا

آوازوں پر کان لگائے تھی محفل
میں ہی لبوں پر مہر لگائے بیٹھا تھا
٭٭٭






تا قیامت رہے جہاں آباد
میرا محبوب ہے یہاں آباد

دائیں بائیں سبھی تو رہتے ہیں
ہم بھی ہو جائیں درمیاں آباد

اک نظارے میں آنکھ الجھی ہوئی
اک اشارے میں بجلیاں آباد

اک ستارا ہے کہکشاؤں میں
اک ستارے میں کہکشاں آباد

رفتگاں نے جنہیں بسایا ہے
ایسی ہوں گی نہ بستیاں آباد

ہائے یہ اپنے وائے بے گانے
ہاشمی ہو گئے کہاں آباد!
٭٭٭



سٹیچو۔ بت نما

جس طرح شہر کے میوزیم میں کوئی اسٹیچو
اپنے ماضی کی روایات کی غمازی کرے
میں بھی ہوٹل کی کسی میز پر اک کونے میں
اپنے ہونٹوں میں دبائے ہوئے فلٹر سگریٹ
جانے کس سوچ میں اسٹیچو بنا بیٹھا ہوں
میری آنکھیں جو چکتی تھیں ستاروں کی طرح
اب ان آنکھوں میں دھندلکوں کے سو ا کچھ بھی نہیں
میری آنکھیں میری پلکوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
٭٭٭



بدن مثال کہاں کینوس سے نکلا ہے
یہ واقعہ تو فریب ِ ہوس سے نکلا ہے

کنار ِ راہ گزر جس کی منتَظر آنکھیں
گزرتا سامنے سے اگلی بس سے نکلا ہے

ہزار جستجو اس کے وصال کی رکھیے
وہ ماہ رو کہاں میٹھے برس سے نکلا ہے

زبان کیا تھی مگر نیٹ پر لگا ہم کو
سخن کا پھول کسی کیکٹس سے نکلا ہے

ہم اُس کی ہاں میں ملاتے رہیں گے ہاں کب تک؟
کہ، ہاشمی وہ کہاں پیش و پس سے نکلا ہے
٭٭٭



گردش میں آ چکے ہیں وہی روزگار کے
قائل نہ تھے جو رحمت ِ پروردگار کے

پہلے خزاں کے بعد اُمیدِ بہار تھی
چپ چاپ دن گزر گئے یوں ہی بہار کے

اٹھتی رہی نگاہ بہ ہر حال چار سُو
دیکھے گئے ہیں جلوے کئی گل عذار کے

بے گانہ بن رہیں کہ کریں التفات ہم
پیشِ نظر ہے ماہ رو زلفیں سنوار کے

درویش کس لیے بنے جاوید ہاشمی
کردار آپ تو نہیں باغ و بہار کے
٭٭٭


ورق گرداں ہے کیوں مصحف کے خال و خد کا تو ایسے
کہ جیسے دشت میں پھرتی ہو ویرانی تماشا کر

چمن میں خوش نوایان ِ چمن کی آزمائش ہو
سخن کے باب میں اس درجہ طولانی تماشا کر

مرے اطراف میں اے وقت کے بپھرے ہوئے طوفاں
نہ اب اس سے زیادہ اور،ارزانی تماشا کر

یہاں جو بے سر و ساماں رہے وہ لوگ اچھے تھے
کہا تھا کس نے اے دم سا ز و سامانی تماشا کر

ہم اوج ِ طالع ِ لعل و گُہر اک بار پھر دیکھیں
زہے قسمت،مکرّر! بخت لا ثانی تماشا کر

چھپا کر رکھ رہے ہو کس لیے ،یہ کیوں نہیں کہتے
سرِ بازار لے چل،پھر پشیمانی تماشا کر

پئے عرض ِ تمنا پھر جو بلقیس ِ غزل آئے
بہ یک جنبش نظر تخت ِ سلیمانی تماشا کر
٭٭٭



دھنک ملے تو نگاہوں میں قید رنگ کریں
رم آج رات چلو چاندنی کے سنگ کریں

یہ آئینہ سا میرا دل ہے اس میں سجتی رہو
پھر اس کے بعد تمنا نئی امنگ کریں

بدن تو مل گئے روحوں کی تشنگی بھی مٹے
سو اختیار چلو آج کوئی ڈھنگ کریں

نہیں ہیں فرصتیں آلامِ روزگار سے جب
اب اس کے بعد بتا کیا ترے ملنگ کریں

یہی ارادہ ہے بزمِ سخن سجائیں کہیں
ردیف وار لکھیں قافیہ نہ تنگ کریں
٭٭٭






رکھنا ہے ہاشمی جو ہنر کو سنبھال کر
پیرایۂ سخن میں بھی پیدا کمال کر

زخمہ نے تارِ ساز سے نغمہ نکال کر
دل ایسا سنگ رکھ دیا کیسا اُجال کر

جب تک نہ حرف جڑ سکوں قرطاسِ وقت پر
آئینۂ خیال مری دیکھ بھال کر

دیدہ وری کا زعم، خدا کی پناہ ،بس
اپنے تئیں نہ راہِ سخن پائمال کر

ہیں رفتگاں کے نقش نگاہوں میں آج بھی
جو ہم سے پیشتر گئے بنیاد ڈال کر

کچھ دیر محوِ آئینہ داری بھی رکھ مجھے
آوارگیِ شوق نہ اتنا نڈھال کر
٭٭٭






صُورتِ حر ف قلم نے لکھّی من کی خاموشی
یا د ہمیں پھر آ نے لگی بچپن کی خاموشی

رُت بر کھا کی پھر آئے جھُولے ڈالے جائیں
چھیڑے میگھ ملہار کی دھُن سا ون کی خاموشی

شا خو ں سے چھنتی کرنیں جب فر ش کو اُجلائیں
چڑیاں آن کے توڑ دیں پھر آنگن کی خاموشی

د و لت وا لو ں کو ا پنے کرتوت کی پروا کیا
ر ا ز نہیں کھُلنے دیتی ہے دھن کی خاموشی

فاقہ زدہ لوگوں کے حال کہاں سب پر کھُلتے
کس نے سُنی جا کر خالی برتن کی خاموشی

با لآ خر الزام تھا سچا دستِ زلیخا پر
ثا بت کر گئی یوسف کے دامن کی خاموشی
٭٭٭






گُونجتی جائے یوں ہی میری صدا میرے بعد
شا د آ با د رہیں لو گ سد ا میر ے بعد

پھر مرے بعد بھی میں یاد تمہیں آ تا ر ہو ں
کوئی مغموم نہ ہو میرے خُدا میرے بعد

کام کب بند ہوئے غالب خستہ کے بغیر
بند کیوں ہوگا کوئی کام بھلا میر ے بعد !؟

کوئی محفل میں اگر مُہر بہ لب ہے تو رہے
د ا د پائیں گے کئی نغمہ سر ا میرے بعد

میں نے یہ سوچ کے بچوں کو دعائیں دی ہیں
بھُول جائیں نہ کہیں حر ف دُ عا میرے بعد

ہا شمی ، قصّۂ پارینہ ہُوا میں لیکن
مُجھ سا ہوگا ، نہ کوئی پہلے ہُوا میرے بعد
٭٭٭






عشق ہو جاتا ہے، ہوتا ہے! پہ کیوں ہوتا ہے
آدمی عشق میں کیوں خوار و زبوں ہوتا ہے؟

اُس نے پوچھا کہ سوا میرے کوئی ہے دل میں
ہاں! مگر ، اُس سے کہوں یا نہ کہوں ہوتا ہے

جس کو اظہار کی جرات ملے، ارزانی رہے
اُس سُخن ور کے سُخن میں ہی فسوں ہوتا ہے

لفظ چُنتے ہیں تو ہوتی ہے غزل کاغذ پر
ریختہ گوئی میں سُنتے رہے یُوں ہوتا ہے

دل سے جو چاہتے ہیں کہنا، نہیں کہہ پا تے
ہجر اور وصل کا یک ساں مضمُوں ہوتا ہے

گھر سے نکلے ہیں پئے عرض - تمنّا یارو
دیکھئے کتنی تمنّاؤ ں کا خوُں ہوتا ہے
٭٭٭



شعر کہتے تو ہیں آغاز سفر یاد نہیں
بھُول ہی جائیں تو بہتر ہے اگر یاد نہیں

ا ب ہمیں یا د نہیں رہتا بھُلانا ہے کیا!
اہل فن بھُول گئے، اہل ہنر یا د نہیں

غالب خستہ ملاقات کو آئے تھے مگر
جانے پھر کیسے گئے،کون ڈگر یاد نہیں

میر صاحب کی غزل کل بھی رہی آج بھی ہے
سودا و مصحفی و داغ و جگر یاد نہیں

ہاشمی گھر سے کئی لوگ تھے ہمراہ چلے
کیوں پرندو ں کی طر ح اُن کو شجر یاد نہیں
٭٭٭



ایک بے ربط نظم کا رابطہ

کیا ہُوا کون یاد آیا تمھیں!
آنکھ آلودہ، ہونٹ تھرتھراتے ہوئے
اشک سینے میں رُک گیا ہے کیا
یا تمنّا میں ڈھل گیا سپنا
کش مکش کا وہ مرحلہ تو نہیں؟
کاش؛ واللہ؛ آ ج ؛ آئندہ
سب نے آرام گاہ میں رہ کر
قصّہ ، افسانہ سن لیا ہوگا
کچھ سُنا ہو گا؛ کچھ کہا ہوگا
شغل بے کار تو نہیں ہوتا؟
عشق آ ز ا ر تو نہیں ہوتا!
عاشقوں کے بدن سلگتے ہیں
عشق صحرا میں جیسے جلتے دل
دھیمی دھیمی سلگتی آنچ سے دل
ہجر اور وصل دونوں یک ساں ہیں
بھُول جائیں کہ یاد رکھیں ہم
و ا د ی ء گل سے پھوٹتی مہکار
سُنتی رہتی ہے زندگی چہکار
رُوح کا جسم سے ملاپ تو ہو
یعنی بندھن ہو کوئی ان مٹ سا
اُس کی رعنائیوں سے پھر پھُوٹے
نافہ ء ہرن جیسی کستوری
کیا بھلا ذکر نان ، نفقے کا
شاعری عشق ہے کہ مجبوری
ہم نے خُود کو نہیں کیا دریافت
یہ تو بس آگہی کا قصّہ ہے
یافت کی بات ، طعنہ ء نا یافت
اک سُخن ور جو ہم کو مانتے ہیں
لوگ پہچانتے ہیں ،جانتے ہیں
٭٭٭



ر و ا یا ت بدلیں نہ د ن ر ا ت بد لے
نہ غم کی فضائیں نہ صدمات بدلے

زمیں خُوں میں ڈُوبی چلی جا رہی ہے
نہ بد بخت خُونیں نہ ’وہ ہات‘ بدلے

غریب اور بھی کچھ غریب ہو گیا ہے
امیروں کے کب ہیں خیالات بدلے

وہی شعبدہ بازیاں چل رہی ہیں
وفا داریاٍں نہ مفادات بدلے

خُدایا سوا تیرے اب کس سے پوچھیں
سوا تیرے اب کون حالات بدلے
٭٭٭



سکون پاتیں مرے آنسوؤں سے دھُل کر کے
میں ا یک بار تورو لیتا کاش کھُل کر کے

ہوا کو دوش کی دینا کہ کیا ملا اُس کو
کسی غریب کے جلتے دیئے کو گُل کر کے

جہاں بھی جائیں، تشخص اسی سے بنتا رہے
زبان اُردو رہی رابطے کا پُل کر کے

تو کیا ضروری ہے دنیا بھی مان لے اُس کو
جو شعر آپ کی میزاں سے آئے تُل کر کے

جو سوچئیے تو غزل کے لیے یہ کافی ہیں
کہے ہیں ہاشمی ہم نے جو پانچ کُل کر کے
٭٭٭

زمین میری ماں

زمین ماں ہے مری
میں زمین کا بیٹا
اُٹھائے پھرتی ہے یہ میرا بوجھ
میں اِس کا!
شکستہ دل ہو اگر آدمی تو کیا کیجے
خود اپنی موت بنے زندگی تو کیا کیجے
ابھی نہیں تو کبھی، کل یا اس کے بعد کبھی
یہی کہوں گا میں:
’’ز مین دیکھ لے ملبوس میں نہیں آ یا
لبادہ دو سروں کے واسطے سدا پہنا
جہاں جہاں بھی رہا
ننگے پاؤں، ننگے سر
سو آج ننگا بدن لے کے آ گیا ہوں
ماں '۔ !
٭٭٭


گوارا سہو کیا ہو نکتہ چینی کرتا رہتا ہوں
کسا لا کھینچتا ہوں حر ف بینی کر تا رہتا ہوں

خیال و فکر لے جاتے ہیں سوئے آسماں مجھ کو
میں اپنے آپ کو ہم سر زمینی کر تا رہتا ہوں

کیا کر تا ہو‌ں جو کار سُخن راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر
برائے رزق پھر کار مشینی کرتا رہتا ہوں

ہمیشہ انجمن آ را ئی لگتی ہے مجھے مشکل
سہو لت سے بہم گو شہ نشینی کرتا رہتا ہوں

یہ معیار ہُنر رب کی عطا ہے ہاشمی، سو میں
گُمان و بد گُمانی کو یقینی کر تا رہتا ہوں
٭٭٭


مطمئن ہوتا نہیں یہ دل کسی بھی بات پر
تبصر ہ کارِ عبث ہے صورتِ حالات پر

خاکداں میں خاکساری کا مزا لیتا ہوں میں
ناز کر لیتا ہوں میں قدموں تلے ذرات پر

لہجہء خو د اختیاری بن گیا پہچاں مری
منطبق فکرِ رسا ہوتی ہے میری ذات پر

کارِ دُنیا کو تما شائے دگر سمجھا نہیں
مجھ کو دُنیا نے کیا تسلیم، تسلیمات پر

کیوں نہ مجھ پر سہل ہوتی زندگی یارانِ من
استطاعت تھی سو اُس نے بوجھ ڈالے ہات پر
٭٭٭




(نذرِ میر تقی میر )

سرسری تم جہان سے گزرے
دل سے خالی مکان سے گزرے

گردشیں بھی گزر ہی جا تی ہیں
تم یوں ہی بد گمان سے گزرے

خلق کو مبتلائے غم کر تے
حادثے آن بان سے گزرے

اک صد ی بعد میرزا غالب
میر جیسی ہی شان سے گزرے

یا د کر نا وہ زلف کا سا یا
دھو پ جب سائبان سے گزرے

سخت دشوار تھا غزل کہنا
تم کہا ں امتحان سے گزرے
٭٭٭


نم دیدگی کا سلسلہ پیہم نہیں ر ہا
جب سے وہ اشک باری کا موسم نہیں رہا

لوگوں پہ طاری خوف کا عالم نہیں رہا
جب تک مزا ج شہر کا برہم نہیں رہا

ہوتے رہیں گے حادثے کب تک یہ پے بہ پہ
دہشت گری کا سلسلہ بھی تھم نہیں رہا

اے وقت درج کر لے مرے احتجاج کو
اس باب میں شعار مرا کم نہیں رہا

اب ہو گا راج غیر کا اس سرزمین پر
کیا حاکمانِ وقت میں دم خم نہیں رہا
٭٭٭




صرف سُکڑ ا ہی نہیں بیٹھا ،ہوں پھیلا ہوا میں
دوست ا حبا ب گئے پھر سے ا کیلا ہو ا میں

مصلحت ہو گی خد ا کی کہ سخن و ر رکھا
بن نہیں پا یا گُر و ا و ر نہ چیلا ہو ا میں

کارِ دُنیا بھی کیا تجھ سے محبت کے سبب
عشق میں دیکھ لے مجنوں، مری لیلی ٰ ہوا میں

ہیر رانجھا کی کہانی سے مجھے کیا لینا
رہ برِ عشق بتا کس لیے ویلا ہو ا میں!

نقش کیوں اپنے نظر آتے ہیں دھندلے دھندلے
آئنہ گر د میں لپٹا تھا کہ میلا ہو ا میں!

گھر سے نکلا تھا کہیں نا ن جویں کی خاطر
خاک و ہ لپٹی مشقت کی نکیلا ہوا میں

سمت معلوم نہیں پھر بھی چلا جاتا ہوں
گُم شد ہ باغ سے دنیا میں دھکیلا ہوا میں

گول ر و ٹی نہ ہو ں چوکور پراٹھے کی طرح
جانے کس بیلن و چوکے پہ ہوں بیلا ہوا میں

میری آزاد خیالی نے کہاں پہنچایا
دھیان کی کوکھ سے پھسلا تھا کہ چھیلا ہوا میں

جیسی خو د تلخیِ د و ر ا ں میں ر ہے کڑوا ہٹ
ا پنے ا ظہار میں ویسا ہی کریلا ہو ا میں
٭٭٭

راتوں کو گنوا کر نیند اپنی صفحات یہ کالے ہم نے کیے
دُکھ درد نہ سہنے پائے کبھی شعروں کے حوالے ہم نے کیے

آنکھ میں بھر کے رکھے شب کے اُ جا لے ہم نے
دُکھ تھے جتنے کیے شعروں کے حوالے ہم نے

اِ ن پہ لکھنا تھا حصول زر کم خو ا ب تو پھر
کیو ں یہ اوراق مقدر کیے کالے ہم نے

و ا ں بھی یہ جبر مشیت ہی رہے گا تو پھر
یا ں تو رکھا ہے بہت خود کو سنبھالے ہم نے
٭٭٭
Thanks to Aijaz Ubaid Lib.Urdunet.Org
مختلف اردو ویب سائٹس سے ماخوذ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
http://i49.tinypic.com/5nq26u_th.jpg

Tanwir Phool
-
-
Posts: 2221
Joined: Sun May 30, 2010 5:06 pm
Contact:

Re: Majmoua Dhoop Aor Saieybaan.Syed Anwer Jawaid Hashmi

Post by Tanwir Phool »

:salaam2:
بہت خوب :subh:
دلی مبارک باد
http://www.abitabout.com/Tanwir+Phool
http://duckduckgo.com/Tanwir_Phool
http://www.allaboutreligions.blogspot.com
Post Reply