اگر کوئی سر اُبھر رہا ہے
Posted: Tue Dec 14, 2021 7:26 am
قارئین کرام ایک فی البدیہہ تازہ کلام کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں امید ہے پسند آئے گا اپنی آرا سے نوازیے شکریہ
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتوں سےجو ڈر رہا ہے
وہ نفرتوں سے گزر رہا ہے
وہ باغیوں میں شمار ہو گا
اگر کوئی سر اُبھر رہا ہے
نہ چپقلش کا شکارہو اب
کہیں کوئی ایسا گھر رہا ہے
خوشی سے پاگل ہوا ہے کوئی
تو کوئی جل جل کے مر رہا ہے
خُدا سے اپنی مرادیں مانگو
مرادیں پوری جو کر رہا ہے
حیات ہے اختتام پر تو
خمارِ ہستی اتر رہا ہے
وہ اپنے انجام سے ہے غافل
جو اپنی حد سے گزر رہا ہے
خیالؔ کیسے تُو زندگی کے
ہر ایک پل سے مُکر رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ