آنکھیں سُکڑ گئی ہیں ابرُو میں آئے خم سے
Posted: Wed Dec 15, 2021 6:15 am
قارئین کرام آداب عرض ہیں ، ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گا ، اپنی آرا سے نوایے ۔ شکریہ
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرتے ہیں گفتگو وہ کچھ اس طرح سے ہم سے
آنکھیں سُکڑ گئی ہیں ابرُو میں آئے خم سے
اپنی تباہیوں کی ہم پر ہے ذمہ داری
تم ہوتے کون ہو جو یوں پوچھتے ہو ہم سے
ہم بس مزے مزے میں لایعنی بک رہے ہیں
تم لے کے اپنا بھاشن کودے ہو کیسے دھم سے
ہے زندگی ہماری ہم جس طرح گزاریں
غصّے میں ہیں مخاطب صاحب یوں محترم سے
شرم و حیا کا نکلا ہے ہر طرف جنازہ
نادم نہیں کوئی دل خالی ہے آنکھ نم سے
دنیا میں آئے ہیں ہم پابندیوں میں جکڑے
ہم کو ہیں کام کرنے سب اس میں ملتَزَم سے
ہر شخص اپنی اپنی مرضی سے جی رہا ہے
غافل ہر آدمی ہے عقبیٰ کے رنج و غم سے
ہو گا خیالؔ کس کو ہوش و حواس اپنا
عالم نڈھال ہوگا محشر میں جب الم سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ