طرحی غزل - لگتا ہے بہار اب کے خزاؤں کی پلی ہے
Posted: Sat May 07, 2022 3:33 pm
طرحی غزل
لگتا ہے بہار اب کے خزاؤں کی پلی ہے
"گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے"
دشوار ہوا ہے مرا شہ مات سے بچنا
دنیا نے کوئی چال بڑی سخت چلی ہے
پُر نور چراغوں کو بجھاتے چلے جانا
یہ رسم زمانے میں ہواؤں سے چلی ہے
دن بھر تو مشقت کے الاؤ میں جلا ہوں
آسانی سے چولھے میں کہاں آگ جلی ہے
یہ بھوک ہی افلاس کا عنوانِ جلی ہے
بیسن کی ہے روٹی نہ ہی مصری کی ڈلی ہے
حیراں ہوں کسی سمت بھی رستہ نہیں دیتی
لگتا ہے کہ یہ دنیا کوئی بند گلی ہے
یہ شعر کہ لہکا ہے جو ڈالی پہ غزل کی
جدت کا ہے غنچہ تو روایت کی کلی ہے
شاہین فصیح ربانی
لگتا ہے بہار اب کے خزاؤں کی پلی ہے
"گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے"
دشوار ہوا ہے مرا شہ مات سے بچنا
دنیا نے کوئی چال بڑی سخت چلی ہے
پُر نور چراغوں کو بجھاتے چلے جانا
یہ رسم زمانے میں ہواؤں سے چلی ہے
دن بھر تو مشقت کے الاؤ میں جلا ہوں
آسانی سے چولھے میں کہاں آگ جلی ہے
یہ بھوک ہی افلاس کا عنوانِ جلی ہے
بیسن کی ہے روٹی نہ ہی مصری کی ڈلی ہے
حیراں ہوں کسی سمت بھی رستہ نہیں دیتی
لگتا ہے کہ یہ دنیا کوئی بند گلی ہے
یہ شعر کہ لہکا ہے جو ڈالی پہ غزل کی
جدت کا ہے غنچہ تو روایت کی کلی ہے
شاہین فصیح ربانی