باتوں سے آپ کی ہرے پھر زخم ہو گئے
Posted: Fri Sep 30, 2022 11:00 am
قارئین کرام ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب درد دل سے اٹھ کے سُوئے چشم ہو گئے
افشا سبھی پہ حال رزم و بزم ہو گئے
کیسے بدل دیا ہے یہ معیارِ زندگی
الفت خلوص پیار سبھی رسم ہو گئے
حاسد خود اپنی آگ میں جلتے ہیں صبح و شام
جل جل کے کتنے لوگ یونہی بھسم ہو گئے
بغض و عناد دل میں لیے جی رہے ہیں لوگ
کرتے تھے درگزر کبھی سب ختم ہو گئے
علم و ادب پہ چھایا ہے یوں ہر طرف زوال
جب شکوہ سنج روح و رواں بزم ہو گئے
ہم زندگی کی دوڑ میں آگے نہ جا سکے
اتنا ہوا کہ دوڑ میں پُرعزم ہو گئے
جب زندگی نے ہم سے کیا ناروا سلوک
اشعار بن کے خود میں کہیں نظم ہو گئے
جو زخم آپ نے دیے وہ بھر نہ پائیں گے
باتوں سے آپ کی ہرے پھر زخم ہو گئے
کچھ تو خیالؔ کیجیے تھوڑی سے شرم ورم
سب کہہ رہے ہیں آپ تو بے شرم ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ