رُت نے پھولوں کے عِوَض کانٹوں سے دامن بھر لیے
Posted: Mon Nov 18, 2024 6:34 pm
یہ کلام ۲۵ مئی ۲۰۲۳ میں لکھا گیا تھا
قارئین کرام ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُڑتے پتّوں نے ہوا سے عہد و پیماں کر لیے
رُت نے پھولوں کے عِوَض کانٹوں سے دامن بھر لیے
بپھری موجیں سب کو ساگر میں ڈبونے لگ گئیں
بہہ گئے ساحل پہ اپنے اپنے تھے جو گھر لیے
آپ سے اتنی محبت تھی کہ ہم نے آپ کے
جو لگائے ہم پہ تھے الزام اپنے سر لیے
اب ہمیں ہرگز نہیں ہے آندھیوں سے کوئی خوف
ہم ہیں صحرا میں بجز دیوار ، بام و در لیے
آدمی اللہ سے شکوہ کناں رہتا ہے کیوں
جب کہ اس کا ہے مقدر خود میں خیر و شر لیے
بولیے کس کو بھروسا ہو گا ایسے آپ پر
آپ کھل کر آ گئے ہیں ہاتھ میں خنجر لیے
کس قدربولا تھا کھل کر آپ نے ہر سَمت جھوٹ
گھومتے ہیں ہر طرف اب صورتِ مضطر لیے
بندگی کو زندگی سے کر کے تُو خارج خیالؔ
بول کب تک جی سکے گا آخرت ابتر لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ