شکنجہ آہنی دبوچ کر سبھی کو لے گیا
Posted: Mon Nov 18, 2024 6:39 pm
یہ کلام ۲۵ مئی ۲۰۲۳ میں لکھا گیا تھا
قارئین کرام ایک نظم حالاتِ حاضرہ پر مبنی جس کا عنوان ہے ’’ عروج وزوال‘‘ امید ہے پسند آئے گی
عرض کیا ہے
’’ عروج و زوال‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتھل پتھل تھی ہر طرف عجب تھا شور ہر طرف
ہر ایک دوسرے کو چور کہہ رہا تھا ہر طرف
بڑے بڑے سے اژدھے خزانے تھے نگل رہے
جو نفرتوں کی آگ اپنے منہ سے تھے اگل رہے
مقابلے پہ چار سُو فساد ہی فساد تھا
ہر آدمی جب آدمی کو مارنے پہ شاد تھا
زمین پر غرور سے اکڑ رہے تھے سارے لوگ
زمانے بھر کی نفرتوں کے پل رہے تھے دل میں روگ
دلوں کو اطمینان تھا یوں عزتیں اچھال کر
ذلیل کر رہے تھے سب بھڑاس کو نکال کر
مقابلے پہ چار سُو فساد ہی فساد تھا
ہر آدمی جب آدمی کو مارنے پہ شاد تھا
بغاوتوں کو لے کے سب حدود سے گزر گئے
نہیں تھا کرنا جو بلا جھجھک وہ کیسے کر گئے
مزاج نسلِ نَو کو اس طرح کا ہے دیا گیا
ہے بد لحاظ بےادب و بدتمیز بےحیا
مقابلے پہ چار سُو فساد ہی فساد تھا
ہر آدمی جب آدمی کو مارنے پہ شاد تھا
الجھ گئے غلام اپنی عادتوں کے فوج سے
سنبھل نہ پائے ڈوبنے سے بِھڑ گئے جو موج سے
شکنجہ آہنی دبوچ کر سبھی کو لے گیا
جنہیں عروج تھا ملا زوال ان کو دے گیا
خیالؔ بادشاہ کو فقیر کر دیا گیا
زمین پر خُدا تھا جو اسیر کر دیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ