جان دیتے تھے جو اک دوجے پہ ان میں ٹھن گئی
Moderator: Muzaffar Ahmad Muzaffar
- ismail ajaz
- -
- Posts: 482
- Joined: Tue Jan 13, 2009 12:09 pm
جان دیتے تھے جو اک دوجے پہ ان میں ٹھن گئی
یہ کلام ۱۳ جنوری ۲۰۲۴ میں لکھا گیا تھا
قارئین کرام آداب عرض ہیں ، ایک نظم پیشِ خدمت اہلِ الفت کی ہے نذر جس کا عنوان ہے
مرے سپنوں کا شہزادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مل گیا شہزادہ لیکن امتحاں بھی بڑھ گئے
سپنوں کے شہزادے میں کمبخت کیڑے پڑ گئے
دھیرے دھیرے پیار کی باتیں بری لگنے لگیں
ہولے ہولے سب ملاقاتیں بری لگنے لگیں
پھر ہوا وہ جو ازل سے ہوتا آیا ہے یہاں
کیسا شہزادہ اور اسکی کون سی جانِ جہاں
دوریاں بڑھنے لگیں اور عیب سب دکھنے لگے
پیار میں دو دل دھڑکتے تھے پرے ہٹنے لگے
تھی جو الفت کی نظر وہ نفرتوں میں ڈھل گئی
زندگی حیوانیت کے راستے پر چل گئی
عہدو پیماں جو کیے تھے سب ہوا وہ ہو گئے
لوگ دل میں نفرتوں کے ایسے کانٹے بو گئے
زندگی جنگ و جدل کا ایک منظر بن گئی
جان دیتے تھے جو اک دوجے پہ ان میں ٹھن گئی
دیکھنا صورت گوارہ تک نہیں ان کو خیالؔ
آج کل کے لیلیٰ مجنوں کا ہُوا ہے ایسا حال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ
- Attachments
-
- جان دیتے تھے جو اک دوجے پہ ان میں ٹھن گئی.jpg (121.82 KiB) Viewed 1055 times
محبّتوں سے محبّت سمیٹنے والا
خیالؔ آپ کی محفل میں آج پھر آیا
muHabbatoN se muHabbat sameTne waalaa
Khayaal aap kee maiHfil meN aaj phir aayaa
Ismail Ajaz Khayaal
(خیال)