Page 1 of 1

خیالؔ آنکھیں سبھی دکھلا رہے ہیں

Posted: Sat Dec 07, 2024 12:30 am
by ismail ajaz

یہ کلام ۱۵ مئی ۲۰۲۴ میں لکھا گیا تھا
قارئین کرام ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے ، امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے اہلِ وطن پگلا رہے ہیں
اُٹھا کر منہ کدھر کو جا رہے ہیں

لگا کر آگ اپنے ہی چمن کو
یہاں گل چیں خوشی سے گا رہے ہیں

گل و بلبل کو نفرت ہے وطن سے
وطن کو چھوڑ کر جو جا رہے ہیں

مرے کھیتوں میں سور ہیں گھسے کیوں
جو کھیتوں میں تباہی لا رہے ہیں

نئی اس نسل نے پڑھنا نہیں ہے
ابھی سے ہم تمہیں بتلا رہے ہیں

وطن سے ہے ہمیں ہر پل شکایت
جبھی تو ہم وطن کو کھا رہے ہیں

ٹپکتی ہے شرافت ہر کسی سے
خباثت کے جو رتبے پا رہے ہیں

بلندی سے گرا کردوسروں کو
سبھی ہمدردیاں جتلا رہے ہیں

کوئی مثبت نہیں وہ کام کرتے
جو بس بیٹھے ہوئے بتیا رہے

ہمارے گھر میں رہ کے ہم کو اب تو
خیالؔ آنکھیں سبھی دکھلا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ