بغاوتوں سے تو پھرغدر ہی ثمر ہو گا
Posted: Sat Jan 18, 2025 12:13 am
یہ کلام۷ اگست ۲۰۲۴ میں لکھا گیا تھا
قارئین کرام ایک تازہ کلام پیشِ خدمت ہے امید ہے پسند آئے گا
عرض کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو آدمی نہ رہے گا تو کیا بشر ہو گا
ادب لحاظ نہ ہو گا تو جانور ہو گا
جو سر اٹھائے گا وہ اپنے سر سے جائے گا
کرو گے تم جو بغاوت نہ دھڑ نہ سر ہو گا
چلے ہو غیر کے رستے پہ منزلیں پانے
تو راستہ بھی کسی اور کی ڈگر ہوگا
بغاوتوں سے بھلا کون جی سکا ہے کبھی
بغاوتوں سے تو پھرغدر ہی ثمر ہو گا
جو کارواں ہے پڑاو اسے ہی ڈالنا ہے
قیام ہو گا جبھی ترک یہ سفر ہو گا
سمجھ رہا ہے وہ خود کو بہت جہاندیدہ
کھلے گا راز نہ اس پر جو کم نظر ہو گا
تمہارا میں نے سنا ہے بہت طویل سوال
جواب میرا بھی سن لو جو مختصر ہو گا
بہت غرور ہے تم کو تو اپنی شہرت پر
یہی غرور تمہارے لیے بھنور ہو گا
خدا کی بات کو رد کر کے کس طرح سے خیالؔ
نجات پائے گا بخشش سے بہرہ ور ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توجہ کا طلبگار
اسماعیل اعجاز خیالؔ